1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'عراقی شدت پسندوں نے‘ درگاہیں تباہ کرنا شروع کر دیں

شامل شمس6 جولائی 2014

شمالی عراق میں سنی عسکریت پسندوں نے قدیم درگاہوں کو تباہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس بات کی تصدیق موصل اور بعض دیگر علاقوں کے باسیوں نے کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1CWZF
تصویر: justpaste.it/atrah

انٹرنیٹ پر عراق کی ایک بڑی آبادی کے لیے انتہائی مقدس سمجھی جانے والی مذہبی عمارت کو آگ میں لپٹے ہوئے اور انتہا پسندوں کے ہاتھوں بموں کے ذریعے تباہ ہونے کے مناظر کی ویڈیوز سامنے آئی ہیں۔ مسلمان ممالک سمیت عالمی مقامات پر اس کے خلاف شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔

عراقی شہریوں کے مطابق درگاہوں کی ’’بے حرمتی‘‘ کرنے والے عسکریت پسندوں کا تعلق اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا یا آئی ایس آئی ایس سے ہے۔

واضح رہے کہ آئی ایس آئی ایس حالہ کچھ ہفتوں ہی میں بہت تیزی کے ساتھ عراق کے کئی شہروں پر قابض ہو گئی ہے۔ کٹر اسلامی نظریے کی حامل اس تنظیم نے دارالحکومت بغداد کی جانب پیش قدمی شروع کی تھی تاہم اسے ناکام بنا دیا گیا۔ امریکا ان شدت پسندوں سے نمٹنے کے لیے عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کی مدد کر رہا ہے۔ ایران نے بھی عراقی حکومت کو معاونت کی یقین دہانی کرائی ہے۔

قبل ازیں آئی ایس آئی ایس کے رہنما اور خلافت کے دعوے دار ابو بکر البغدادی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اس کی اطاعت کریں۔ البغدادی نے یہ بات ہفتے کو جاری کیے جانے والے ایک ویڈیو پیغام میں کہی۔

اس بصری پیغام میں البغدادی، جو کہ ایک سیاہ لباس پہنے ہوئے تھا، کچھ یہ کہتا دکھائی دیا ہے: ’’میں ولی ہوں تاکہ تمہاری قیادت کروں، اگرچہ میں تم میں سے بہترین نہیں ہوں۔ لہٰذا اگر تمہیں ایسا لگتا ہے کہ میں راست راہ پر ہوں تو میرا ساتھ دو۔‘‘

''اگر تمھیں لگتا ہے کہ میں غلط ہوں تو مجھے بتاؤ اور میری اصلاح کرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘

دوسری جانب عراقی وزیر اعظم نے لیفٹیننٹ جنرل علی غیدان کو ان کے عہدے سے بر طرف کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی پولیس کے سربراہ محسن الکابی کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔

فوج اور پولیس کے عہدے داروں کے رد و بدل کے باوجود عراقی حکومت آئی ایس آئی ایس کو مکمل طور پر ختم نہیں کر پائی ہے۔

آئی ایس آئی ایس کی کارروائیوں نے عالمی برادری کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس تنظیم کے تسلط میں آنے کے بعد ہزاروں شہری اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید