1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراقی شاپنگ مال میں بڑا حملہ

عاصم سلیم5 دسمبر 2013

عراق ميں متعدد پر تشدد واقعات ميں اب تک کم از کم نو افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔ سب سے خونريز حملہ شمالی شہر کرکوک ميں ہوا، جہاں حملہ آوروں نے ايک شاپنگ کمپليکس پر متعدد حملے کرتے ہوئے کئی افراد کو يرغمال بنا ليا۔

https://p.dw.com/p/1ATE2
تصویر: MUSTAFA OZER/AFP/Getty Images

کرکوک ميں قائم جواہر پلازہ نامی ايک شاپنگ مال پر گزشتہ روز مقامی وقت کے مطابق دوپہر ڈيڑھ بجے ايک کار بم دھماکا کيا گيا، جس کے بعد سکيورٹی افواج اور حملہ آوروں کے درميان فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گيا۔ اطلاعات کے مطابق اپنے چہروں پر نقاب ڈالے ہوئے حملہ آوروں نے کمپليکس ميں داخل ہو کر وہاں موجود صارفين کو يرغمال بنا ليا اور اس پانچ منزلہ عمارت کی چھت تک رسائی حاصل کر کے وہاں سے سکيورٹی دستوں پر فائرنگ بھی کی۔ کچھ حملہ آوروں نے خود کش جيکٹيں بھی پہن رکھی تھيں۔

Autobombe Anschlag Irak Baghdad
کرکوک میں کیے گئے اس حملے ميں کم از کم چھ افراد ہلاک اور ستر سے زائد زخمی ہو چکےتصویر: picture alliance/AP Photo

اس حملے ميں کم از کم چھ افراد ہلاک اور ستر سے زائد زخمی ہو چکے ہيں جبکہ سرکاری اہلکاروں نے خدشہ ظاہر کيا ہے کہ ہلاک شدگان کی تعداد ميں اضافہ ممکن ہے کيونکہ دو خود کش حملہ آور اب تک شاپنگ مال کے احاطہ ميں چھپے ہوئے ہيں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار انہيں تلاش کر رہے ہيں۔ ايسی اطلاعات بھی ہيں کہ سکيورٹی فورسز نے گيارہ يرغماليوں کو رہا کرا ليا ہے۔ چونکہ آخری خبريں موصول ہونے تک جواہر پلازہ ميں يہ کارروائی جاری تھی، ہلاک شدگان اور زخميوں کی تعداد ميں اضافے کا امکان بھی موجود ہے۔

دريں اثناء دارالحکومت بغداد سميت موصل اور فلوجہ ميں بدھ کے دن ہونے والے پر تشدد واقعات ميں تين افراد کی ہلاک کی تصديق کی جا چکی ہے۔ ان حملوں کے سبب ملک بھر ميں وسيع پيمانے پر پر تشدد واقعات شروع ہونے کے خدشات بھی بڑھ گئے ہيں۔ عراق ميں رواں برس پر تشدد واقعات ميں ہلاک ہونے والوں کی تعداد چھ ہزار دو سو سے تجاوز کر چکی ہے۔

تشدد کی لہر ميں اضافہ رواں برس اپريل ميں اس وقت ہوا جب سکيورٹی فورسز نے ايک سنی احتجاجی کيمپ کو نشانہ بنايا۔ يہ مظاہرين دارالحکومت بغداد کے شمال ميں شيعہ انتظاميہ کی جانب سے مبينہ امتيازی سلوک کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اگرچہ اس کے بعد بغداد کی شيعہ انتظاميہ کی جانب سے ملک کی سنی آبادی کے ليے چند رعايات کا اعلان کيا جا چکا ہے تاہم اس کے باوجود وہاں روزانہ کی بنيادوں پر پر تشدد واقعات کا سلسلہ ابھی تک نہیں تھم سکا ہے۔