1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: پُر تشدد واقعات میں 12 ہلاک

17 مارچ 2013

آج عراق کے جنوب اور شمال میں دو مختلف پُر تشدد واقعات میں بارہ افراد ہلاک ہو گئے۔ اِن میں سے دَس افراد بصرہ کے قریب ایک شیعہ علاقے پر کیے جانے والے دو کار بموں کے حملوں میں ہلاک ہوئے۔

https://p.dw.com/p/17zD4
تصویر: Reuters

عراقی سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ اتوار سترہ مارچ کو جنوبی عراق میں دو کار بم حملے ہوئے۔ ایک حملہ دارالحکومت بغداد سے کوئی 550 کلومیٹر دور واقع شہر بصرہ کے وسط میں ایک گیراج میں ہوا جبکہ دوسرا کار بم حملہ بصرہ سے بیس کلو میٹر دور واقع کرمۃ علی نامی ایک شیعہ اکثریتی علاقے میں کیا گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ دارالحکومت بغداد سے تقریباً 400 کلومیٹر شمال کی جانب واقع شہر موصل میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک گھر پر حملہ کر کے وہاں موجود دو افراد کو ہلاک کر دیا۔ موصل ہی میں ایک اور واقعے میں ایک مقامی عہدیدار اُس وقت بال بال بچ گیا، جب اُس کا قافلہ سڑک کنارے نصب ایک بم کے دھماکے کی زَد میں آ گیا۔

Irak Kirkuk Selbstmordanschlag
امریکی دستوں کے انخلاء کے بعد سے عراق میں تقریباً روزانہ پُر تشدد واقعات رونما ہو رہے ہیںتصویر: Reuters

دوسری طرف القاعدہ سے منسلک ایک گروہ نے بغداد میں رواں ہفتے ہوئے اُس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے، جس میں دارالحکومت بغداد میں وزارتِ انصاف کی عمارت کے قریب عراقی وزیر انصاف کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اسلامک اسٹیٹ آف عراق نامی اس گروہ کے مطابق جمعرات کو کیے جانے والے اس حملے میں ساٹھ سکیورٹی اہلکار اور تفتیش کار مارے گئے تھے۔ تاہم پولیس کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 23 تھی۔

ان منظم حملوں میں وسطی بغداد میں اہم حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایک جہادی ویب سائٹ پر آج اتوار کو پوسٹ کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ آپریشن وزارتِ انصاف کے اُس کردار کا بدلہ لینے کے لیے کیا گیا، جو یہ وزارت سنی العقیدہ خواتین کو ہراساں کرتے، اُنہیں جیلوں میں ڈالتے اور اُنہیں موت کے گھاٹ اُتارتے ہوئےکر رہی ہے‘۔

دسمبر 2011ء میں امریکی دستوں کے انخلاء کے بعد سے عراق میں تقریباً روزانہ پُر تشدد واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ یہ خدشات زور پکڑتے جا رہے ہیں کہ یہ ملک ایک بار پھر اُس طرح کے فرقہ وارانہ تشدد کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، جس نے 2006ء اور 2007ء میں عراق کو خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔

آج کل یہ ملک شیعہ قیادت میں قائم حکومت اور سنی اقلیت کے درمیان بڑھتی ہوئی سیاسی خلیج کی گرفت میں ہے۔ گزشتہ تین مہینوں سے ہزارہا سنی مظاہرین سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے ایسے قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو اُن کی نظر میں سنیوں کو نشانہ بنانے کے لیے متعارف کروائے گئے ہیں۔

(aa/ab(AFP