1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: پرتشدد واقعات میں کم از کم 90 افراد ہلاک

امتیاز احمد17 دسمبر 2013

عراق میں ہونے والے مختلف پرتشدد واقعات میں کم از کم نوّے افراد مارے گئے ہیں۔ سن دو ہزار چھ کے بعد رواں برس عراق کا پرتشدد ترین سال ہے۔ فرقہ وارانہ واقعات پہلے ہی سے تباہ حال اس ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Aakx
تصویر: Reuters

سوموار کے روز ہونے والے پرتشدد واقعات میں زیادہ تر شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ عراق بھر میں ہونے والے مختلف دھماکوں اور پر تشدد کارروائیوں میں کم از کم 90 افراد ہلاک جبکہ 160 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق گزشتہ روز عسکریت پسندوں کی طرف سے دو مختلف شہروں میں حکومتی عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

عراقی قومی نیوز ایجنسی کے مطابق دارالحکومت بغداد کے جنوب میں کم از کم 15 افراد کو اس وقت نشانہ بنایا گیا، جب وہ کربلا شہر کی طرف سفر کر رہے تھے۔ قبل ازیں بیجی شہر میں واقع ايک پولیس اسٹیشن کے سامنے ایک کار بم دھماکا کیا گیا، جس میں کم از کم چار پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ بیجی شہر دارالحکومت سے تقریباﹰ 210 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ عسکریت پسندوں کی طرف سے اس پولیس اسٹیشن پر قبضہ کر لیا گیا تھا تاہم بعد ازاں چھ حملہ آوروں کو ہلاک کرتے ہوئے سکیورٹی اہلکاروں نے اپنا کنٹرول بحال کر لیا۔ اسی طرح کا ایک حملہ تکریت کی صوبائی کونسل پر کیا گیا، جس میں کونسل کے ایک رکن سمیت چار افراد ہلاک ہوئے۔ بعد ازاں عراقی کمانڈروں نے اس عمارت کا بھی کنٹرول حاصل کر لیا۔

Anschlag Irak Bagdad 8.12.13
تصویر: Reuters

شمالی شہر موصل کے مضافات میں ایک مسلح شخص نے شیعہ زائرین کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہوئے۔ ایک کار بم دھماکا دارالحکومت بغداد میں ہوا، جس میں دس افراد ہلاک اور بیس زخمی ہوئے۔ اسی طرح عراق کے دیگر صوبوں میں بھی پرتشدد کارروائیاں کی گئیں۔ عراقی حکام اور مقامی نیوز چینلوں کے مطابق کئی زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

فرقہ ورانہ تشدد میں اضافہ

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ عراق میں کم از کم 659 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق رواں ماہ ہلاک ہونے والے عراقیوں کی تعداد 262 بنتی ہے۔ اس نیوز ایجنسی کے مطابق سن دو ہزار ہزار چھ کے بعد رواں برس عراق کا پرتشدد ترین سال ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تشدد کی اس تازہ لہر سے ایک مرتبہ پھر اس ملک میں فرقہ ورانہ فسادات کے نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ سن 2006 اور 2007ء کے دوران ہزاروں عراقی شہری سنی اور شیعہ مسلمانوں کے مابین ہونے والے فرقہ ورانہ حملوں میں مارے گئے تھے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ واقعات پہلے ہی سے تباہ حال اس ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ عراق میں سیاست نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہوتی ہے۔ وہاں شیعہ، سُنی اور کرد نسل کی آبادی کے مابین اقتدار میں شراکت داری پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق شام کی صورتحال بھی عراق میں فرقہ وارانہ تشدد میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔