عراق میں مذہبی مقامات حملوں کی زد میں
20 مئی 2013خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عراق میں سنی اقلیت اور شیعہ اکثریت کے مابین تناؤ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے اور لوگ اب جائے عبادت کا رخ کرنے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ عراق کے سیاسی مفکر احسان الشماری کے بقول ایک دوسرے کے مذہبی مقامات پر حملوں کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ’’ یہ مساجد پر حملوں کی جنگ ہے‘‘۔ عراق پر امریکی قیادت میں 2003ء کے حملے اور اس کے ساتھ صدام دور کے خاتمے کے بعد سے قریب ہر روز خون خرابہ ہورہا ہے۔ اس عرب ملک میں سکیورٹی فورسز اور شہری دونوں ہی نشانہ بن رہے ہیں اور اب عبادت گاہیں نشانے پر ہیں۔
گزشتہ ہفتے کو بعقوبہ کے ایک مسجد کے اندر دو بم دھماکے اس سلسلے کے خونریز ترین حملوں میں سے ایک تھے۔ نماز جمعہ کے فوری بعد اس مسجد میں پہلا دھماکہ ہوا تھا اور جیسے ہی لوگ متاثرین تک پہنچے دوسرا دھماکہ ہوا اور یوں 41 لوگوں کی جانیں ضائع ہوگئیں۔ اس واقعے کے ایک روز قبل شیعہ فرقے کی الزہرہ حسینیہ میں ایک خودکش حملہ آور نے دھماکہ کیا تھا، جس میں بارہ افراد کی جانیں ضائع ہوگئیں تھیں۔
شیعہ مذہبی مقامات کی دیکھ بھال کرنے والی تنظیم کے نائب سربراہ شیخ سمی المسعودی کے مطابق محض رواں برس ان کے زیر انتظام 45 سے زائد مذہبی مقامات دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنے۔ اسی طرح سُنی مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر محض رواں ایک ماہ میں دس حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ ایک 25 سالہ سُنی نوجوان احسان احمد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے گھر کے پاس ایک مسجد اب دہشت گردانہ حملے کے بعد بند ہوگئی ہے اور وہ اب عبادت کرنے نہیں جاتے۔ اسی طرح ایک 29 سالہ شیعہ شہری علی کا کہنا تھا کہ ان کے بھی بہت سے جاننے والے اب حسینیاں نہیں جاتے۔
شیعہ سُنی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اتوار کے روز ملکی وزیر اعظم نوری المالکی نے دارالحکومت میں سنی اور شیعہ شہریوں کو اجتماعی نماز کی دعوت دی تھی اور کہا تھا کہ دہشت گرد دونوں فرقوں کے پیروکاروں کے دشمن ہیں۔
(sks/ ia (AFP