عراق میں خودکش حملے، پچاس سے زائد ہلاکتیں
15 اکتوبر 2016عراقی دارالحکومت بغداد میں ایک شیعہ جنازے کے اجتماع کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں کم از کم اکتالیس افراد ہلاک ہوئے جبکہ تیس سے زائد زخمی ہیں۔ شیعہ جنازےکے شرکاء بغداد شہر کے شمالی ضلع الشعب کی ایک مارکیٹ کے علاقے میں عارضی طور پر کھڑے کیے گئے خیمے میں جمع ہو کر دعائیہ مجلس میں شریک تھے۔
خودکش حملہ آور کی کارروائی کے نتیجے میں خیمہ کے اندرونی حصہ میں انسانی خون اور اجزا بکھر کر رہ گئے۔ حملہ آور نے اپنی بارودی جیکٹ جنازے کے شرکاء کے عین وسط میں پہنچ کر اڑائی۔
بغداد ہی میں مسلح حملہ آوروں نے ایک سنی پارلیمانی لیڈر کے علاوہ ایک پولیس چیک پوائنٹ پر حملہ کیا۔ سنی لیڈر نعمان المُجمعی حکومتی پالیسیوں کی کھلم کھلا حمایت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سنی لیڈر کا مکان بغداد کے علاقے اسحاق میں واقع ہے۔
اِس حملے میں نعمان المُجمعی کی بیوی اور تین بچے مارے گئے۔ مسلح حملہ آور جب سنی لیڈر کے گھر کے اندر داخل ہوئے تو اُس وقت وہ مکان میں موجود نہیں تھے۔ فائرنگ کی آوازیں سن کر قریب موجود عراقی سکیورٹی فورسز نے حملہ آوروں پر فائرنگ کرتے ہوئے پیچھا کیا۔ جب سکیورٹی اہلکار اُن کے قریب پہنچے تو انہوں نے اپنی بارودی جیکٹوں کو اڑا دیا۔
جس پولیس چیک پوائنٹ پر حملہ کیا گیا، وہ تکریت شہر کے نواحی علاقے متعیبیجا (Mutaibija) میں واقع تھی۔ عسکریت پسندوں کے اچانک حملے میں کم از کم آٹھ پولیس اہلکاروں کی ہلاکت ہوئی۔ اس موقع پر پولیس اور عسکریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا اور تین شدت پسندوں کو مار دیا گیا۔
عراق اور شام میں سرگرم دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے اِن حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگلے ایام میں عراق کے مختلف حصوں میں خودکش اور نصب شدہ بم حملوں میں اضافے کا قوی امکان ہے کیونکہ عراقی فوج ان دنوں موصل شہر کا قبضہ چھڑانے کی عسکری مہم کی منصوبہ بندی کو حتمی شکل دینے والی ہے اور غالب امکان ہے کہ اِس پلاننگ کے بعد عراقی فوج نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ پر چڑھائی کر دینی ہے۔