عراق میں تشدد کی تازہ لہر، 70 سے زائد افراد ہلاک
23 جولائی 2013پیر کا دن عراق کے لیے انتہائی خونی ثابت ہوا۔ ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں آج 70 سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ملکی دارالحکومت بغداد اور صوبے نینوا کا دارالحکومت موصل دہشت گردی کا مرکز بنارہا۔
دن کے آغاز کے ساتھ ہی عراق کے شمال میں واقع شہر موصل میں ایک فوجی قافلے پر ہونے والے خودکش حملے میں کم از کم 25 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے۔ مقامی وقت کے مطابق آج صبح قریب نو بجے ہونے والے اس خودکش حملے میں تین راہ گیروں کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ایک شخص نے بارود سے بھری ایک گاڑی ایک فوجی قافلے سے ٹکرا دی۔ جس وقت یہ دہشت گردانہ حملہ ہوا، اس وقت ایک فوجی قافلہ معمول کے گشت پر تھا۔ دریائے دجلہ کے کنارے پر آباد شہر موصل، ترکی اور شام کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہاں زیادہ تر کرد نسل کے لوگ آباد ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس سے پہلے رات گئے چند مسلح افراد نے عراق کی دوجیلوں پر حملہ کردیا۔ اس حملے مقصد وہاں قید افراد کو چھڑانا تھا۔ اے ایف پی نے عراقی وزارت داخلہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حملے بغداد کے شمال میں تاجی اور مغرب میں ابوغریب کی جیل پر کئے گئے۔
عراقی حکام کے مطابق بغداد کے قریب کئے گئے ان حملوں کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔ دوسری طرف حملہ آوروں کا دعوی ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔
عراق سے موصولہ اطلاعات کے مطابق قیدیوں کو آزاد کروانے کے لیے کیے گئے اس حملے میں41 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں بیس سکیورٹی اہلکار اور اکیس قیدی شامل ہیں۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عراق کی جیلوں پر اس قسم کے حملے وقفے وقفے سے ہوتے رہتے ہیں۔
ابو غریب جیل پر حملے کے بعد وہاں سے کم ازکم ایک ہزار قیدیوں کے فرار ہونے کی اطلاعات ہیں۔ خبر رساں ادارے ڈی اپی نے ایک عراقی رکن پارلیمان حکیم الزاملے کے حوالے سے بتایا ہے کہ فرار ہونے والوں میں زیادہ تر کا تعلق القاعدہ سے ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رواں ماہ جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق عراق میں اپریل سے جاری تشدد کی لہر میں 2,500 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔