عراق میں تشدد، پانچ ایرانی جلا وطن ہلاک
9 فروری 2013خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عراقی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ وسطی عراق میں واقع اس کیمپ پر قریب چالیس مارٹر گولے اور راکٹ فائر کیے گئے، جس کے نتیجے میں ایرانی حکومت کے پانچ منحرفین مارے گئے جبکہ چالیس زخمی ہو گئے۔ ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ اس حملے میں مجاہدین خلق (MEK) کے ممبران مارے گئے ہیں جبکہ تین عراقی سکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔
ایرانی حکومت کی منحرف مجاہدین خلق نامی تحریک کی قیادت نے پیرس میں بتایا ہے کہ پینتس مارٹر گولوں اور راکٹ حملوں میں ان کے چھ ممبران مارے گئے ہیں۔ اس تحریک کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کے پچاس ممبران زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ ان حملوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے فوری تحقیقات کا مطالبہ
اس واقعے کے رونما ہونے کے بعد اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ عراق میں موجود اس کے معائنہ کار ہلاک شدگان کے بارے میں تفصیلات جمع کر رہے ہیں۔ ایرانی حکومت کی مخالف اور جلا وطنی اختیار کیے ہوئے تحریک مجاہدین خلق کے قریب تین ہزار ممبران اس کیمپ میں سکونت پذیر ہیں۔ ان افراد کو ابھی گزشتہ برس ہی اس نئے کیمپ میں منتقل کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق عالمی ادارے کے خصوصی مندوب مارٹن کوبلر نے عراقی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان حملوں کی فوری طور پر تحقیقات کرائیں۔ بیان کے مطابق، ’’ہمارے معائنہ کار عراق میں موجود ہیں، جو وہاں تمام تر پیشرفت کا جائزہ لیں گے۔‘‘
عراق میں تعینات اقوام متحدہ کے مشن کی ترجمان ایلینا نابا نے بتایا ہے کہ عراقی حکام کے بقول اس واقعہ میں زخمی ہونے والے افراد کو علاج کی غرض سے فوری طور پر مختلف ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
مجاہدین خلق کی بنیاد 1960ء میں رکھی گئی تھی، جو اس وقت ایران کے شاہ کے خلاف برسر پیکار ہوئی۔ 1979ء میں ایرانی انقلاب کے بعد اس تحریک نے وہاں مذہبی حکمرانون کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کر دی تھی۔
اس تحریک کا کہنا ہے کہ اب اس نے مسلح جدوجہد ختم کر دی ہے اور پر امن طریقے سے ایران میں اسلامی حکومت کے خاتمے کی کوشش میں ہے۔ مجاہدین خلق کو ایران میں کسی بھی طرح کی حمایت حاصل نہیں ہے جبکہ اس کے وہاں کی اپوزیشن سے بھی کوئی روابط نہیں ہیں۔
ab/zb (AFP)