1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں بم دھماکے، 60 سے زائد افراد ہلاک

عدنان اسحاق 4 ستمبر 2013

عراق میں قتل و غارت گری کا سلسلہ تھمتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ دارالحکومت بغداد سمیت ملک کے مختلف علاقوں کو سلسلہ وار بم دھماکوں نے ایک مرتبہ پھر ہلا کر رکھ دیا۔

https://p.dw.com/p/19bd5
تصویر: Getty Images/AFP

عراقی حکام نے بتایا ہے کہ دارالحکومت بغداد سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 60 سے زائد ہو گئی ہے۔ حکام کے بقول بغداد دہشت گردوں کے خاص نشانے پر تھا۔ بتایا گیا ہے کہ صرف دارالحکومت میں مربوط انداز میں گیارہ بم دھماکے کیے گئے، جن میں زخمی ہونے والوں کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے۔

زیادہ تر بم دھماکوں کا ہدف شیعہ آبادی والے علاقوں میں قائم مساجد، بازار اور عوامی مقامات تھے۔ شمالی عراق میں کرد اکثریتی علاقے کو بھی نشانہ بنایا گیا جبکہ شہر موصل میں سڑک کے کنارے نصب ایک بم کے پھٹنے سے ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا۔

Irak Anschlagsserie September 2013
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اگست کے مہینے میں عراق میں 800 سے زائد افراد دہشت گردی کی نذر ہوئےتصویر: Getty Images/AFP

ابھی تک کسی بھی گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ تاہم حکام نے ان حملوں کی ذمہ داری سنی شدت پسندوں اور القاعدہ کے دہشت گردوں پر عائد کی ہے۔ منگل کو سب سے زیادہ خونریز حملہ شمالی بغداد میں طلبیہ کے علاقے میں ہوا، جہاں نو افراد ہلاک ہوئے۔ ایک پولیس اہلکار علی جمیل نے بتایا کہ اس نے آگ کا گولا سا اٹھتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے کہا: ’’ہم فوری طورپر جائے وقوعہ پر نہیں پہنچے کیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ دوسرا دھماکا بھی ہو گا۔ اس کے صرف ایک منٹ بعد قریب ہی دوسرا بم پھٹا۔‘‘

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اگست کے مہینے میں عراق میں 800 سے زائد افراد دہشت گردی کی نذر ہوئے اور اس دوران سب سے زیادہ خونریزی دارالحکومت بغداد میں ہوئی۔ اس سے قبل منگل کی صبح مسلح افراد نے حکومت نواز سنی ملیشیا کے ایک رکن کے گھر میں داخل ہو کر اسے بیوی اور تین بچوں سمیت قتل کر دیا گیا۔ سب کے سر قلم کیے گئے۔ سہوا نامی یہ گروپ القاعدہ کے خلاف کارروائیوں میں امریکی حکام کے ساتھ تعاون کرتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بغداد کے مختلف علاقوں سے چار نا معلوم افراد کی لاشیں بھی ملی ہیں۔ جنوبی شہر بصرہ میں بھی مسلح افراد نے ایک سنی مبلغ عبدالکریم مصطفیٰ کو مسجد جاتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

اس سے قبل 2006ء اور 2007ء میں عراق میں سلامتی کی صورتحال اسی طرح انتہائی مخدوش تھی اور اس دوران ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک ماہ کے دوران کیے جانے والوں حملوں کی زد میں آکر مرنے والوں کی تعداد تین ہزار سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ حکام کو ڈر ہے کہ کہیں سات سال قبل والے حالات کا دوبارہ سے سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔