عراق میں بم دھماکے، 60 سے زائد افراد ہلاک
4 ستمبر 2013عراقی حکام نے بتایا ہے کہ دارالحکومت بغداد سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 60 سے زائد ہو گئی ہے۔ حکام کے بقول بغداد دہشت گردوں کے خاص نشانے پر تھا۔ بتایا گیا ہے کہ صرف دارالحکومت میں مربوط انداز میں گیارہ بم دھماکے کیے گئے، جن میں زخمی ہونے والوں کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے۔
زیادہ تر بم دھماکوں کا ہدف شیعہ آبادی والے علاقوں میں قائم مساجد، بازار اور عوامی مقامات تھے۔ شمالی عراق میں کرد اکثریتی علاقے کو بھی نشانہ بنایا گیا جبکہ شہر موصل میں سڑک کے کنارے نصب ایک بم کے پھٹنے سے ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا۔
ابھی تک کسی بھی گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ تاہم حکام نے ان حملوں کی ذمہ داری سنی شدت پسندوں اور القاعدہ کے دہشت گردوں پر عائد کی ہے۔ منگل کو سب سے زیادہ خونریز حملہ شمالی بغداد میں طلبیہ کے علاقے میں ہوا، جہاں نو افراد ہلاک ہوئے۔ ایک پولیس اہلکار علی جمیل نے بتایا کہ اس نے آگ کا گولا سا اٹھتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے کہا: ’’ہم فوری طورپر جائے وقوعہ پر نہیں پہنچے کیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ دوسرا دھماکا بھی ہو گا۔ اس کے صرف ایک منٹ بعد قریب ہی دوسرا بم پھٹا۔‘‘
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اگست کے مہینے میں عراق میں 800 سے زائد افراد دہشت گردی کی نذر ہوئے اور اس دوران سب سے زیادہ خونریزی دارالحکومت بغداد میں ہوئی۔ اس سے قبل منگل کی صبح مسلح افراد نے حکومت نواز سنی ملیشیا کے ایک رکن کے گھر میں داخل ہو کر اسے بیوی اور تین بچوں سمیت قتل کر دیا گیا۔ سب کے سر قلم کیے گئے۔ سہوا نامی یہ گروپ القاعدہ کے خلاف کارروائیوں میں امریکی حکام کے ساتھ تعاون کرتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بغداد کے مختلف علاقوں سے چار نا معلوم افراد کی لاشیں بھی ملی ہیں۔ جنوبی شہر بصرہ میں بھی مسلح افراد نے ایک سنی مبلغ عبدالکریم مصطفیٰ کو مسجد جاتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
اس سے قبل 2006ء اور 2007ء میں عراق میں سلامتی کی صورتحال اسی طرح انتہائی مخدوش تھی اور اس دوران ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک ماہ کے دوران کیے جانے والوں حملوں کی زد میں آکر مرنے والوں کی تعداد تین ہزار سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ حکام کو ڈر ہے کہ کہیں سات سال قبل والے حالات کا دوبارہ سے سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔