عراق میں ایک نئے امریکی فوجی اڈے کا بڑا منصوبہ
10 جون 2015امریکا میں واشنگٹن اور اسرائیل میں یروشلم سے موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں میں امریکی حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ واشنگٹن کے اس نئے فوجی اڈے کے قیام کا مقصد عراق میں سرکاری دستوں کی عسکری مدد کرنا ہے تاکہ ان کی شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے خلاف کامیاب مقابلے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جا سکے۔
روئٹرز نے امریکا میں ان عسکری تیاریوں سے بخوبی واقف ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ صدر باراک اوباما آج بدھ دس جون کے روز یا پھر آئندہ چند دنوں میں اس منصوبے کی منظوری دے سکتے ہیں۔ اس طرح عراقی صوبے انبار کے دارالحکومت رمادی پر عسکریت پسندوں کے پچھلے مہینے کنٹرول کے بعد سے اس نئے امریکی فوجی اڈے کے قیام کا فیصلہ عراق سے متعلق واشنگٹن کی عسکری حکمت عملی میں پہلی بڑی تبدیلی ہو گی۔
اعلٰی امریکی حکام نے اپنی شناخت ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ اس منصوبے کے تحت عراق میں فوجی مشیروں اور تربیتی ماہرین کی صورت میں امریکی فوجی موجودگی میں اضافے سے عراقی دستوں کی اس صلاحیت میں واضح طور پر اضافہ ہو سکے گا کہ وہ اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے خلاف بڑی کارروائی کرتے ہوئے رمادی پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں کر سکیں۔
اس سے قبل کئی عسکری ماہرین نے یہ بھی کہا تھا کہ عراق میں اس وقت موجود امریکی فوجی مشیروں اور تربیتی ماہرین کی تعداد 3100 بنتی ہے اور رمادی یا انبار میں مجموعی طور پر حالات کو دوبارہ بغداد حکومت کے حق میں کرنے کے لیے یہ تعداد کسی بھی طرح کافی نہیں ہے۔
روئٹرز کے مطابق امید کی جا رہی ہے کہ صدر اوباما اپنے اس گزشتہ فیصلے پر قائم رہیں گے کہ امریکا عراق میں اب اپنے فوجی دستوں کو نہ تو براہ راست زمینی جنگی کارروائیوں میں حصہ لینے کی اجازت دے گا اور نہ ہی ان دستوں کو محاذ جنگ کے قریبی علاقوں میں تعینات کیا جائے گا۔
اس پس منظر میں کئی فوجی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا نے عراق میں عدم استحکام کے شکار اور زیادہ تر سنی آبادی والے اس علاقے میں اگر اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا تو ان امریکی دستوں کو ممکنہ طور پر اب تک کے مقابلے میں زیادہ خطرات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
واشنگٹن سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق عراق میں جس نئے امریکی فوجی اڈے کے قیام کی بات کی جا رہی ہے، اسی کے تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ عراق میں اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ کے عسکریت پسندوں کی پیش قدمی روکنے کے سلسلے میں صدر باراک اوباما کو امریکا کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر بھی بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے کیونکہ گزشتہ ایک سال کے دوران بے دریغ قتل عام اور اپنے زیر قبضہ یرغمالیوں کے سر قلم کرنے کے واقعات کے ساتھ ساتھ دولت اسلامیہ یا داعش کے جنگجو عراق کے تقریباﹰ ایک تہائی حصے پر قابض ہو چکے ہیں اور ان کے زیر قبضہ شام کے وسیع تر علاقے اس کے علاوہ ہیں۔
باراک اوباما نے ابھی گزشتہ پیر کے روز ہی کہا تھا کہ امریکا کے پاس ابھی تک ایسی کوئی ’مکمل حکمت عملی‘ نہیں ہے کہ جس پر عمل کرتے ہوئے عراقی دستوں کی تربیت کا کام اس طرح تکمیل کو پہنچ سکے کہ وہ اسلامک اسٹیٹ کے زیر قبضہ عراقی علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر سکیں۔