عراق مسجد میں بم دھماکا، کم از کم 18 افراد ہلاک
20 ستمبر 2013جمعے کے روز ہونے والے یہ دھماکے عراقی شہر سامراء کی ایک مسجد میں ہوئے۔ حکام کے مطابق نماز جمعہ کے دوران ہونے والے ان دھماکوں میں بیس سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ مقامی حکام کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مصعب بن عمیر نامی مسجد کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ سامراء شہر عراقی دارالحکومت بغداد سے تقریبا 95 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بڑھتے ہوئے فرقہ ورانہ واقعات پہلے ہی سے تباہ حال اس ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ عراق میں حالیہ چند مہینوں کے دوران فرقہ ورانہ تشدد میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سن 2008ء کے بعد ان دنوں فرقہ ورانہ تشدد اپنی بلندترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس جنوری سے لے کر اب تک پانچ ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ ان حملوں میں زخمیوں کی تعداد بارہ ہزار سے بھی زیادہ بنتی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تشدد کی اس تازہ لہر سے ایک مرتبہ پھر اس ملک میں فرقہ ورانہ فسادات کے نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ سن 2006 ء اور 2007ء کے دوران ہزاروں عراقی شہری سنی اور شیعہ مسلمانوں کے مابین ہونے والے فرقہ ورانہ حملوں میں مارے گئے تھے۔
عراق کی صورتحال پر نظر رکھنے والے ایک تجزیہ کار عمر الصالح کا کہنا ہے، ’’ ایک طرف شیعہ نمازیوں پر حملے کیے جا رہے ہیں، دوسری طرف سُنی نمازیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حملوں کے پیچھے جو کوئی بھی ہے، وہ فرقہ ورانہ فسادات کو ہوا دینا چاہتا ہے۔‘‘
عمر الصالح کا مزید کہنا تھا، ’’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں سکیورٹی کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ عراقی اس صورتحال پر نہ صرف فکر مند ہیں بلکہ وہ اس سے خوفزدہ بھی ہیں۔‘‘
عراق میں جاری حالیہ کشیدگی میں اضافہ اس وقت سے ہوا ہے، جب حکومت نے سُنیوں کی طرف سے الحويجہ کے قریب لگائے گئےایک احتجاجی کیمپ کے خلاف کارروائی کی۔ احتجاجی کیمپ میں شامل مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ عراق میں سیاست نسلی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر ہوتی ہے۔ وہاں شیعہ، سُنی اور کرد نسل کی آبادی کے مابین اقتدار میں شراکت داری پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق شام کی صورتحال بھی عراق میں فرقہ ورانہ تشدد میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔