عراق: خود کش حملوں میں کم ازکم 35 افراد ہلاک
8 فروری 2013خبر رساں ادارے اے اپی نے بغداد سے ملنے رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمعے کے دن ہونے والے ان حملوں میں دو مارکیٹوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں 100 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع بھی ہے۔ ان حملوں کو رواں ماہ کے دروان ہونے والے خونریز ترین حملے قرار دیا گیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق مبینہ طور پر سنی باغیوں کی طرف سے پہلا حملہ خادمیہ میں جانوروں کی ایک مارکیٹ میں ہوا۔ دو خود کش کار بمباروں کی طرف سے کی گئی اس کارروائی کے نتیجے میں 17 افراد ہلاک جبکہ 45 زخمی ہو گئے۔
دوسرا حملہ بغداد کے شمال میں واقع ہلہ نامی صوبے میں ہوا۔ اس حملے میں بھی دو خود کش کار بمباروں نے یکے بعد دیگرے حملہ کیا۔ اس واقعہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد چودہ بتائی گئی ہے۔ ہلاک ہونے والے تمام عام شہری بتائے گئے ہیں۔
اگرچہ عراق میں 2006ء اور 2007ء میں بھڑکنے والے شدید فرقہ وارانہ فسادات کی شدت میں کمی نوٹ کی گئی ہے۔ تاہم اے پی کے مطابق اب بھی سنی باغی اکثر اوقات نوری المالکی کی شیعہ حکومت کی قابلیت کو چیلنج کرنے کے لیے آئے روز شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
حکومت مخالف مظاہرے
آج بروز جمعہ عراق کے پانچ بڑے شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں سنی افراد نے شیعہ وزیر اعظم نوری المالکی کی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے۔ ان مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت سنی آبادی کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتی ہے اور نوری المالکی اقتدار پر قابض رہنے کی کوششوں میں ہیں۔
عراق میں سنی رہنماؤں نے القاعدہ کی طرف سے دی جانے والی اُس کال کو مسترد کر دیا تھا کہ وہ شیعہ حکومت کے خلاف ’مسلح جدوجہد‘ شروع کر دیں۔ تاہم اس کے باوجود ایسے خدشات پائے جاتے ہیں کہ جنگجو عراقی سنی عوام کو اکسانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
سمارا میں نکالے جانے والے ایک احتجاجی جلوس میں سنی رہنما شیخ محمد جوما نے اپنے خطاب میں خبردار کرتے ہوئے کہا، ’’ جبر اور استحصال کا سلسلہ بند کر دینا چاہیے۔‘‘ انہوں نے مزید کہاکہ عراقی سنی اپنے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق انبار صوبے کے دو بڑے شہروں فلوجہ اور رامادی میں بھی حکومت مخالف ریلیاں نکالی گئیں۔ اسی طرح موصل اور تکریت میں بھی حکومت مخالف لوگوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر نکلی۔ وسط دسمبر سے عراقی سنی ہر ہفتے حکومت مخالف ریلیوں کا انعقاد کر رہے ہیں۔
(ab/aba (AP