1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: جلوسوں پر حملے، کم از کم 41 ہلاک

امتیاز احمد14 نومبر 2013

عراق میں سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کے باوجود شیعہ مسلمانوں کے ماتمی جلوسوں پر ہونے والے مختلف بم حملوں میں درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1AHc3
تصویر: MEHR

یہ خونریز حملے ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب مرکزی شہری کربلا میں لاکھوں شیعہ مسلمان جمع ہیں۔ شیعہ مسلمانوں کے لیے تاریخی اہمیت کے حامل اس شہر میں دنیا بھر سے ہزاروں زائرین پہنچے ہیں۔

ہسپتال اور پولیس ذرائع کے مطابق پولیس وردی میں ملبوس ایک خود کش حملہ آور نے شیعہ اکثریت والے صوبے دیالہ کے شہر السعدیہ میں لوگوں نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور 80 زخمی ہو گئے ہیں۔

Polizei im Irak
صرف کربلا اور اس کے مضافات ہی میں 35 سو سے زائد پولیس اور فوجی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہےتصویر: dapd

آج عراق میں ہونے والا یہ تیسرا حملہ تھا، جس میں شیعہ برادری کو نشانہ بنایا گیا۔ اس سے پہلے دارالحکومت بغداد کے جنوب میں واقع شہر حفریہ میں دو منظم حملے کیے گئے، جن میں کم از کم نو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ اسی طرح کرکوک میں بھی دو حملے ہوئے، جن میں کم از کم پانچ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

صوبائی حکام کے اندازوں کے مطابق رواں برس کربلا میں 20 لاکھ کے قریب افراد جمع ہوئے ہیں اور ان میں سے تقریبا دو لاکھ بیرون ملک سے آئے ہیں۔ مقامی حکام کے مطابق زائرین کی اتنی بڑی تعداد کی وجہ سے شہر کے تقریباً تمام ہوٹل مکمل طور پر بک ہو چکے ہیں۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد کا تقریبا 15 فیصد حصہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔ عراق، ایران اور بحرین میں شیعہ مسلمان اکثریت میں رہتے ہیں جبکہ افغانستان، لبنان، عمان، پاکستان، سعودی عرب، شام اور یمن میں بہت بڑی شیعہ کمیونٹیز آباد ہیں۔

القاعدہ سے تعلق رکھنے والے سنی عسکریت پسند ماضی میں بھی عراق میں شیعہ کمیونٹی کو ٹارگٹ کرتے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ رواں برس ملک بھر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ صرف کربلا اور اس کے مضافات ہی میں 35 سو سے زائد پولیس اور فوجی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ عراق میں سن 2008ء کے بعد سے شیعہ کمیونٹی کے خلاف ہونے والی عسکری کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔