عراق اور شام میں شدت پسندوں پر حملے: ترک پارلیمان کا فیصلہ آج متوقع
2 اکتوبر 2014ترک سرحد پر بڑھتے ہوئے تنازعے نے ترکی کی حکومت کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ تشویش اس باعث بھی ہے کہ عراق اور شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ نامی شدت پسند اسلامی تنظیم نے خاصے بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اور اب اس کی کارروائیاں ترکی کے قریب تر ہوتی جا رہی ہیں۔ اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں نے ان بعض کراسنگ پوائنٹس پر بھی اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے جو ترکی کو شام اور عراق سے ملاتے ہیں۔
شمالی عراق میں اسلامک اسٹیٹ کرد جنگجوؤں سے نبرد آزما ہے۔ خیال رہے کہ ترکی اور کرد باغیوں کے درمیان عرصہ دراز سے تنازعہ چلا آ رہا ہے۔ تاہم اسلامک اسٹیٹ یا آئی ایس کے عفریت کے سر اٹھانے کے سبب کرد باغیوں اور ترک حکومت کے درمیان خلیج بھی کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
مغربی ممالک، بشمول امریکا اور جرمنی، اسلامک اسٹیٹ کی سرکوبی کے لیے کردوں کی مدد کر رہے ہیں۔ امریکا کی سربراہی میں ایک بین الاقوامی اتحاد تشکیل پا چکا ہے جو کہ اس تنظیم کے خلاف شام اور عراق میں فضائی حملے کر رہا ہے۔
یہ بات واضح نہیں کہ اگر ترک پارلیمنٹ کی جانب سے اس تنظیم کے خلاف فوجی حملوں کی قرارداد منظور ہو جاتی ہے تو یہ کس نوعیت کے حملے ہوں گے اور ان کی پہنچ کہاں تک ہو گی۔
واضح رہے کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے سامنے رکھی جانے والی قرارداد میں شامی حکومت اور کرد جنگجوؤں کی جانب سے ترکی کے لیے خطرات کو بھی سامنے رکھا گیا ہے۔
قبل ازیں ترک صدر نے اس گمان کا اظہار کیا تھا کہ فضائی حملے اسلامک اسٹیٹ کا خاتمہ کر سکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ محض ایک عارضی حل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی طرف سے امریکا اور مغربی ممالک کے لیے ممکنہ تعاون پر بھی سوالات اٹھائے تھے۔
کردوں کی جانب سے بھی ترک حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین ہجرت کر کے ترکی جا چکے ہیں اور وہاں کیمپوں میں سکونت پذیر ہیں۔