عراق: انبار ميں شدت پسندوں کے خلاف بڑی کارروائی
9 جنوری 2014جرمن نيوز ايجنسی ڈی پی اے نے عراقی نشرياتی ادارے السميرا نيوز کے ذرائع سے بتايا ہے کہ انبار کے متاثرہ علاقوں سے شدت پسندوں کا صفايا کرنے کے ليے فوج نے بدھ آٹھ جنوری سے وسيع تر آپريشن شروع کر رکھا ہے۔ ’اسلامک اسٹيٹ ان عراق اينڈ دا ليوانٹ‘ کے جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کے ليے کی جانے والی اس کارروائی ميں بھاری اسلحے سميت ٹينکوں اور ہيلی کاپٹروں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ مقامی پوليس ذرائع کے حوالے سے بتايا گيا ہے کہ يہ کارروائی جزيرہ نامی شہر ميں کی جا رہی ہے۔
اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ايک مقامی پوليس اہلکار نے بتايا کہ قريب چاليس خاندان فوجی اہلکاروں اور شدت پسندوں کے درميان ہونے والی فائرنگ ميں پھنس گئے تھے۔ اس اہلکار کے مطابق تاحال ہلاکتوں کے بارے ميں کوئی اطلاع نہيں ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سرکاری دستوں نے انبار کے صدر مقام رمادی ميں سنی مسلمانوں کے ايک احتجاجی کيمپ کو ہٹا ديا تھا، جس کے بعد سے وہاں فسادات جاری ہيں۔ وہاں فعال جنگجو، شيعہ حکومت کے اس اقدام کے بعد پيدا ہونے والی صورتحال سے فائدہ اٹھا رہے ہيں۔ جنگجوؤں نے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے شہر فلوجہ سميت صوبے کے کئی ديگر علاقوں ميں اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔
حاليہ واقعات کے تناظر ميں ايسے خدشات بڑھ گئے ہيں کہ کہيں عراق دوبارہ اسی صورتحال تک نہ پہنچ جائے، جب سن 2006 اور 2007ء ميں يہ ملک خانہ جنگی کی دہليز تک پہنچ گيا تھا۔
بائيڈن کا المالکی سے ٹيلی فونک رابطہ، مفاہمت پر زور
دريں اثناء امريکی نائب صدر جو بائيڈن نے رواں ہفتے کے دوران عراقی وزير اعظم نوری المالکی سے بذريعہ ٹيلی فون دوسری مرتبہ رابطہ کيا۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ ايک بيان کے مطابق بائيڈن نے المالکی پر زور ديا کہ وہ قبائلی و قومی ليڈروں کے ساتھ اپنی مفاہمت کی پاليسی جاری رکھيں۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے بتايا ہے کہ بدھ کے روز ہونے والی اس گفتگو ميں نائب صدر نے سياسی مفاہمت پر زور ديتے ہوئے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا بھی کہا ہے تاکہ فلوجہ اور رمادی کو ان کی گرفت سے بچايا جا سکے۔
وائٹ ہاوس کے ناقدين عراق ميں جاری ان فرقہ وارانہ فسادات کا کچھ حد تک قصور وار صدر باراک اوباما کو قرار ديتے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ اوباما المالکی کے ساتھ کسی ايسے سمجھوتے کو حتمی شکل دينے ميں ناکام رہے جس کے ذريعے عراق سے فوجوں کے انخلاء کے بعد بھی کچھ امريکی فوجی وہاں تعينات رہ سکتے تھے۔ نتيجتاﹰ 2011ء کے اختتام پر تمام امريکی فوجيوں نے عراقی سرزمين چھوڑ دی تھی۔
اس کے برعکس کئی تجزيہ نگاروں کا يہ ماننا ہے کہ وزير اعظم نوری المالکی ملک ميں بسنے والے سنی مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرنے سے قاصر رہے اور ان کے دور ميں ايسی صورتحال اور حالات پيدا ہوئے، جس ميں ’اسلامک اسٹيٹ ان عراق اينڈ دا ليوانٹ‘ جيسے گروہوں نے زور پکڑا۔