عبدالقادر ملا کی پھانسی پر بنگلہ دیش میں ہنگامے
بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر مُلا کو جمعرات کی شب دس بج کر ایک منٹ پر پھانسی دی گئی۔ وہ پہلے رہنما ہیں جنہیں 1971ء میں پاکستان سے علیحدگی کے لیے آزادی کی تحریک کے دوران کردار پر تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے۔
ملک بھر میں پُر تشدد مظاہرے
عبدالقادر مُلا کو پھانسی دیے جانے کے بعد بنگلہ دیش میں تشدد اور سیاسی افراتفری میں مزید شدت پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ مُلا کی پھانسی کے ردعمل میں ملک میں پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
پاکستان نواز ملیشیا کا سربراہ ہونے کا الزام
بنگلہ دیش میں قائم کیے جانے والے ایک خصوصی ٹریبونل نے رواں برس فروری میں جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر مُلا کو پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کے دوران ایک پاکستان نواز ملیشیا کا سربراہ ہونے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اس ملیشیا پر الزام تھا کہ اس نے بنگلہ دیش کے بعض نامور پروفیسروں، ڈاکٹروں، مصنفین اور صحافیوں کو قتل کیا تھا۔ انہیں عصمت دری، قتل اور قتل عام کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
بے شمار گھر اور دوکانیں نذرِ آتش
مظاہرین نے کئی مقامات پر حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والوں کی املاک کو نذر آتش کیا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مظاہرین نے بنگلہ دیش کے مختلف حصوں میں حکومت کے سپورٹرز اور ہندو اقلیت کے گھروں اور دکانوں کو جلایا ہے۔
مشتعل مظاہرین کے ہاتھوں ہلاکتیں
تشدد کے اس تازہ سلسلے میں جمعے کے دن چار افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی۔ مشتعل مظاہرین نے حکمران عوامی لیگ کے دو کارکنوں کو جنوب مغربی علاقے ستخیرہ میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ جنوبی ضلع نواکھلی میں جماعت اسلامی کے حامیوں کے ساتھ پولیس کی جھڑپ کے دوران ایک شخص ہلاک ہوا جبکہ مشتعل مظاہرین نے ایک ڈرائیور کو ہلاک کر دیا۔
پھانسی کے حامی بنگلہ دیشی شہری
جہاں ایک طبقے کی جانب سے عبدالقادر ملا کی پھانسی پر شدید رد عمل دیکھنے میں آ رہا ہے، وہاں معاشرے کے کئی طبقات میں اس سزا پر اطمینان کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔ جمعرات بارہ دسمبر کی اس تصویر میں نظر آنے والے بنگلہ دیشی شہری سپریم کورٹ کی طرف سے ملا کی اپیل مسترد ہونے کے بعد نکالے جانے والے ایک جلوس میں اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔
پھانسی جمعرات کی شب دی گئی
عبدالقادر مُلا کو منگل کے روز پھانسی دی جانا تھی، تاہم آخری لمحات میں سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کیے جانے کے بعد اس سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔ عبدالقادر ملا کی جانب سے اپنی سزا پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ سے اپیل کی گئی تھی، جو مسترد ہو گئی۔ جمعرات کی شب پولیس کے سخت پہرے میں تین ایمبولینس گاڑیاں سڑکوں پر نکلیں، جن میں سے ایک میں غالباً عبدالقادر ملا کی میت تھی۔
پھانسی سے پہلے آخری ملاقات
عبدالقادر ملا کے قریبی عزیزوں نے جمعرات کے روز دن میں ڈھاکہ جیل میں اُن کے ساتھ آخری ملاقات کی۔ اُسی روز رات کو ملا کی سزائے موت پر عملدرآمد کر دیا گیا۔ بنگلہ دیش کی اپوزیشن پارٹی جماعت اسلامی نے عبدالقادر مُلا کی پھانسی کو ایک سیاسی قتل قرار دیا ہے۔ جماعت کی طرف سے اتوار کے روز عام ہڑتال کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
مُلا سمیت پانچ رہنماؤں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے
آزادی کے لیے لڑنے والوں کی بہبود کے لیے قائم ایک تنظیم سے وابستہ افراد اس سال جولائی میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما علی احسن محمد مجاہد کو پھانسی کی سزا سنائے جانے پر نعرے لگا رہے ہیں۔ مُلا سمیت اب تک پانچ اپوزیشن اور مذہبی رہنماؤں کو متنازعہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کی طرف سے سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ جنوری سے اب تک اس حوالے سے پھوٹنے والے فسادات کے نتیجے میں 230 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔