طالبان کے ساتھ مذاکرات، پہلا دور ختم
6 فروری 2014اس مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بات چیت پاکستانی آئین کے اندر رہتے ہوئے ہونی چاہیے اور امن وسلامتی کے منافی تمام کاروائیاں ختم کی جانا چاہییں۔ اعلامیے کے مطابق ان مذاکرات کا اطلاق پورے ملک پر نہیں بلکہ صرف شورش زدہ علاقوں پر ہو گا۔ اعلامیے کے مطابق دونوں کمیٹیوں نے مذاکرات کے عمل کو مختصر ترین مدت میں مکمل کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ اجلاس کے بعد حکومتی کمیٹی کے رکن عرفان صدیقی اور طالبان کی کمیٹی کے ایک رکن مولانا سمیع الحق نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات انتہائی دوستانہ ماحول میں ہوئے ہیں۔
دونوں کمیٹیوں کے ارکان نے مذاکراتی عمل کو کامیاب بنانے کا عزم ظاہرکیا اور عوام سے مذاکرات کی کامیابی کے لیے دعا کرنے کی اپیل کی۔ مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ حکومتی کمیٹی نے اپنے مطالبات اور ایجنڈا طالبان کمیٹی کے سامنے رکھ دیا، جو جلد طالبان تک پہنچا دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کمیٹی نے حکومتی کمیٹی کے دائرہ کار سے متعلق بھی وضاحت طلب کی ہے۔
وفاقی دارالحکومت میں قائم خیبر پختوانخوا ہاؤس میں منعقدہ ان مذاکرات میں حکومتی کمیٹی کے ارکان عرفان صدیقی، رستم شاہ مہمند، میجر (ریٹائرڈ) محمد عامر اور رحیم اللہ یوسفزئی جبکہ طالبان کی جانب سے مولانا سمیع الحق، پروفیسر ابراہیم اور مولانا عبدالعزیز نے شرکت کی۔
حکومتی کمیٹی کی جانب سے دو روز قبل مذاکرات کے آغاز سے قبل طالبان کی کمیٹی سے چند وضاحیتں طلب کرنے اور طے شدہ ملاقات ملتوی کرنے سے مذاکرات آغاز سے قبل ہی مشکلات کا شکار ہو گئے تھے۔ تاہم بعد میں حکومتی کمیٹی نے اعلان کیا تھا کہ طالبان کی جانب سے ابہام دور کیے جانے کے بعد وہ کسی بھی وقت مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
جمعرات کی دوپہر پاکستانی وقت کے مطابق دو بجے شروع ہونے والے ان مذاکرات کا مقام ابتدائی طور پر خفیہ رکھنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ان مذاکرات پر نظر رکھنے والے میڈیا کے نمائندے جلد ہی اس مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، جہاں پر یہ بات چیت جاری تھی۔
اس سے قبل طا لبان کی مذاکراتی کمیٹی کے ارکان مولانا سمیع الحق اور مولانا عبد العزیز یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ ملک میں اسلامی شریعت کے نفاذ اور امریکی افواج کے افغانستان کے مکمل انخلاء تک پاکستان میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ شریعت کے بغیر طالبان مذاکرات کو قبول نہیں کریں گے۔
اسی دوران خود کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان پشاور کا سربراہ ظاہر کرنے والے مفتی حسان نے دو روز قبل پشاور میں ایک ہوٹل پر ہونے والے خودکش حملے میں شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے نو افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری بھی قبول کر لی ہے۔ سابق وزیر داخلہ اور پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رحمان ملک کا کہنا ہے کہ طالبان کا رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ تشدد کا راستہ ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو سمجھنا چاہیے کہ اس صورتحال میں مذاکرت کا کیا نتیجہ نکلے گا:’’میاں صاحب تو پر خلوص ہیں، ان کی نیت بالکل ٹھیک ہے لیکن طالبان ہمیشہ کی طرح بد نیت ہیں۔ کیونکہ ان کی ڈوریں کوئی اور کھینچ رہا ہے۔ میں یہ سمجھتاہوں کہ اگر طالبان مخلص ہیں اور حکومت نے ان کو امن کا اتنا اچھا موقع دیا ہے تو ان کو یہ کہنے میں کیا عار ہے کہ ہم آج سے سیز فائر کرتے ہیں؟‘‘