1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتافغانستان

پاکستانی پولیس کا رویہ افغان طالبان جیسا ہی ہے، افغان خاتون

2 جنوری 2025

شہر زاد افغان طالبان کے ظلم و ستم سے فرار ہو کر پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن انہیں ایک خوف مسلسل ستا رہا ہے۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے انہیں ایک فکر ہمیشہ لگی رہتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4okkJ
Jahresrückblick 2023  Pakistan Afghanistan Flüchtlinge
تصویر: BANARAS KHAN/AFP/Getty Images

افغان پناہ گزین شہر زاد کی زندگی اسلام آباد میں واقع ایک گیسٹ ہاؤس کی ایک چھوٹی سی کوٹھری تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک پرسکون زندگی کی تمنا لیے پاکستان آنے والی اس خاتون کو خوف ہے کہ پاکستان میں افغان مخالف جذبات ان کے لیے زندگی مزید اجیرن کر سکتے ہیں۔

پاکستانی حکام کی جانب سےافغان مہاجرین کو ہراساں کیے جانے، بھتا خوری اور گرفتاریوں کی اطلاعات نے ان کی راتوں کی نیند اڑا رکھی ہے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد حکومت نے پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغان خاندانوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔

شہر زاد کو لگتا ہے کہ انہیں ان کے بچوں کے ہمراہ پاکستان بدر کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''افغانوں کے لیے یہاں کی صورت حال خوفناک ہے اور پاکستانی پولیس کا رویہ طالبان جیسا ہے۔‘‘

شہر زاد کے بقول حال ہی میں پولیس نے ان کے بیٹے کو اس وقت حراست میں لے لیا تھا، جب وہ گھر کے نزدیک ہی واقع ایک پارک میں چہل قدمی کرنے گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے ان سے دستاویزات کے بجائے پیسے مانگے تھے۔

افغان پناہ گزینوں کے خلاف کریک ڈاؤن

گزشتہ سال موسم گرما میں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے عسکریت پسندانہ حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام آباد حکومت نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔

اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں تقریبا ساڑھے سات لاکھ افغانوں کو بے دخل کیا جا چکا ہے، جن میں سے زیادہ تر بغیر قانونی دستاویزات کے پاکستان میں پناہ لیے ہوئے تھے۔

کیا تحریک طالبان پاکستان کو افغان طالبان کی حمایت حاصل ہے؟

تاہم حالیہ مہینوں میں اسلام آباد حکومت اور پولیس نے یہ الزام عائد کرنا بھی شروع کر دیا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے معاملے پر حزب اختلاف کی طرف سے شروع کردہ بدامنی کو ہوا دینے میں افغان بھی ملوث ہے۔

مغربی ممالک منتقل ہونے کے منتظر، پاکستان میں رہائش پذیر، افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی تناؤ میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

مغربی ممالک کا ویزہ پاکستان سے ہی پراسس ہو گا

امریکی ویزہ حاصل کرنے کی خاطر اسلام آباد آنے والے افغان مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں آنے کے بعد جیسا ہم فرائنگ پین سے نکل کر آگ میں پھنس گئے ہیں‘‘۔

اکتیس سالہ افغان مصطفیٰ اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان میں مقیم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گرفتاری کا خوف ایسا ہے کہ ان کی فیملی کا کوئی بھی رکن اشیائے خورونوش اور ادویات خریدنے کے لیے آزادانہ طور پر باہر جانے سے گریزاں ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ''اگر وہ جانتے ہیں کہ آپ افغان ہیں، چاہے آپ کے پاس ویزا ہو یا نہ ہو، وہ آپ کو گرفتار کر لیں گے یا آپ سے بھتا لیں گے‘‘۔

کابل میں افغان طالبان کی دوبارہ اقتدار میں واپسی کے تین سال بعد بھی امریکہ اور یورپی ممالک نے اب تک وہاں اپنے سفارت خانے نہیں کھولے ہیں، جس کی وجہ سے افغان باشندوں کو ویزے  کے حصول کی خاطر پاکستان آنا پڑتا ہے۔

شہر زاد کے بقول ایک یورپی ملک نے انہیں کہا تھا کہ ان کا ویزہ پاکستان میں ہی پراسس کیا جائے گا، اس لیے وہ اسلام آباد آنے پر مجبور ہوئیں۔

پاکستان:غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی ملک بدری دوبارہ شروع

حکومت پاکستان کا مغربی ممالک سے مطالبہ

 پاکستان کی وزارت خارجہ نے جولائی میں مغربی ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان میں مقیم امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی اور برطانیہ منتقلی کے منتظر 44 ہزار سے زائد افغانوں کی ویزہ درخواستوں پر برق رفتاری سے عمل درآمد کریں۔

گزشتہ چار دہائیوں کے دوران لاکھوں افغانوں نے سوویت حملے، خانہ جنگی اور نائن الیون کے بعد امریکی زیر قیادت فوجی مداخلت سمیت دیگر مسلسل تنازعات سے فرار ہو کر پاکستان کا رخ کیا۔

اگست 2021 میں طالبان حکومت کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے بعد سے تقریبا 600،000 افغان فرار ہو کر پاکستان آ چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت یو این ایچ سی آر کے مطابق پاکستان اس وقت تقریبا 15 لاکھ افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے جبکہ 15 لاکھ سے زائد ایسے افغان بھی ہیں جو مختلف قانونی حیثیت کے تحت پاکستان مقیم ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنان کے تحفظات

اسلام آباد کی عدالتوں میں افغانوں کا دفاع کرنے والی انسانی حقوق کی وکیل ایمان مزاری کا کہنا ہے کہ عمران خان کے حق میں شروع ہونے مظاہروں کی وجہ سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں (افغانوں کی) نسلی پروفائلنگ میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ جس کو چاہے اٹھا لے، ان سے بھتا لے اور ان کا استحصال کرے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور، جنہوں نے عمران خان کے حق میں کیے گئے حالیہ مظاہروں کی قیادت کی، نے کہا کہ افغانوں کے خلاف دشمنی پاکستانی پشتونوں میں پھیلتی جا رہی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کو لکھے گئے ایک خط میں گنڈاپور نے الزام عائد کیا کہ پولیس ''اسلام آباد میں پشتون مزدوروں‘‘ کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ ''اس طرح کے اقدامات سے (پشتون) برادریوں میں الگ تھلگ کر دیے جانے اور بیگانگی کے احساس کو فروغ ملے گا‘‘۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی عام پشتون شہریوں کی مبینہ نسلی پروفائلنگ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسلام آباد پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات سے باز رہے جو ملک میں رہنے والی مختلف برادریوں کے درمیان تقسیم پیدا کرتے ہیں۔

اسلام آباد میں افغان سفارت خانے نے پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں میں افغانوں کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ 

بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کی اس پالیسی سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور اس سے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان بداعتمادی مزید بڑھے گی۔   

یہ مسائل اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ مغربی ممالک جانے کے منتظر پاکستان میں مقیم افغانوں کی زندگی ویسی ہی ہو گئی ہے، جیسی وہ افغانستان میں بسر کر رہے تھے۔

افغان مصطفیٰ کے بقول، ''ہم قیدی بن گئے ہیں، ہم بہت کم اور صرف اس وقت باہر جاتے ہیں، جب ہمیں واقعی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

ع ب/ ع ت (اے ایف پی)

کراچی سے افغان باشندوں کی ملک بدری کی تازہ صورتحال