طالبان، داعش کی راہ میں بڑی رکاوٹ
28 اگست 2015شام اور عراق کے بڑے علاقوں پر قابض یہ شدت پسند گروپ گزشتہ کئی مہینوں سے افغانستان کے مشرقی حصوں میں طالبان کے مضبوط گڑھ میں قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے جو طالبان کے لیے بھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب عسکریت پسند افغان طالبان اپنی سرکردہ قیادت اور ملک کی تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال سے نبرد آزما ہیں، داعش سے منسلک گروپ طالبان سے الگ ہونے والے جنگجوؤں کو بھرتی کر چکا ہے۔
تاہم افغانستان میں داعش کے سینیئر رہنماؤں کی امریکی ڈرون حملوں میں ہلاکت اور اس گروپ کی انتہائی ظالمانہ کارروائیاں بھی، جن کی وجہ سے بہت سے افغان ان سے خائف ہیں، داعش کے پھیلاؤ کو روکنے کا سبب بنی ہیں۔
طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ اکثر ہونے والی جھڑپیں اور لڑائیاں، داعش کی طرف سے قابل ذکر علاقے پر قبضہ کرنے کی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہیں۔ امریکی فوجی سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی نے گزشتہ ماہ کہا تھا، ’’عراق اور شام میں آپ کہہ سکتے ہیں کے داعش چھٹے، ساتویں یا آٹھویں مرحلے میں ہے، لیبیا میں یہ تیسرے یا چوتھے مرحلے میں جبکہ افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ پہلے یا دوسرے مرحلے میں ہے۔‘‘
ان کے نقطہ نظر کی تائید مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے حکام کی طرف سے بھی کی گئی ہے جن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں یہ گروپ اب تک اُس طرح کی مربوط کارروائیاں کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا جس طرح یہ شام یا عراق میں کرتا ہے۔ تاہم اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ افغانستان میں ایک بڑا خطرہ بن کر ابھرے۔
افغان طالبان کے بانی سربراہ مُلا عمر کی ہلاکت کی خبروں اور نئے سربراہ کے طور پر مُلا منصور اختر کو منتخب کیے جانے کے بعد طالبان کے اندر بے یقینی پیدا ہو گئی تھی اور مُلا عمر کے بیٹے سمیت بعض دیگر طالبان رہنماؤں کی طرف سے مُلا منصور کے انتخاب پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ مُلا عمر کی ہلاکت کی خبر کو دو برس تک چھپائے جانے پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔ ان حالات میں امکان پیدا ہو گیا تھا کہ طالبان اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ تاہم ماہرین کے مطابق مُلا منصور کی طرف سے افغانستان میں بڑھتے ہوئے حملوں کا ایک مقصد طالبان کے امیج کو بہتر کرنا بھی ہے تاکہ اس عسکریت پسند گروپ سے وابستہ جنگجو داعش میں شمولیت سے باز رہیں۔
اے ایف پی کے مطابق حالیہ ہفتوں کے دوران امریکی ڈرون حملوں میں اضافہ اور ان کے نتیجے میں افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ کے بعض سینیئر رہنماؤں کی ہلاکت بھی اس دہشت گرد گروپ کے منصوبوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے ہیں۔ ایسے ہی ایک ڈرون حملے افغانستان اور پاکستان کے لیے اسلامک اسٹیٹ کے علاقائی سربراہ حافظ سعید کی ہلاکت بھی شامل ہے۔
واشنگٹن میں قائم ووڈرو وِلسن انٹرنینشل سینٹر فار اسکالرز سے منسلک افغان معاملات کے ماہر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ کی کامیابی میں ایک اور رکاوٹ یہ بھی ہے کہ افغان معاشرہ فرقہ وارانہ طور پر زیادہ تقسیم نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح کی فرقہ ورارنہ تقسیم عراق اور شام میں موجود ہے اور جس سے اسلامک اسٹیٹ نے فائدہ بھی اٹھایا ہے وہ واضح تقسیم افغانستان میں وجود ہی نہیں رکھتی۔