صدمات سے چُور شامی پناہ گزین بچوں کا المیہ
29 نومبر 2013اس بارے میں اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے UNHCR نے ابھی حال ہی میں جاری کردہ 60 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں متعدد شامی بچوں اور نوجوانوں کی دل دہلا دینے والی کہانیاں بیان کی ہیں۔
’’یہ بھولنا ناممکن ہے۔ جب میں اس بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی نے میری کمر میں چھرا گھونپ دیا ہو۔‘‘ یہ کہنا ہے پندرہ سالہ طہٰ کا جس نے شام میں اپنے گھر کے نزدیک سات لاشیں پڑی دیکھی تھیں۔ طہٰ نے اپنے ان بھیانک تجربات کی تفصیلات اقوام متحدہ کے اس ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتائیں۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں صدموں کے شکار اُن شامی بچوں اور نوجوانوں کی درد ناک کہانیاں شامل ہیں جو خانہ جنگی کے سبب اپنا ملک چھوڑ کر اُردن اور لبنان میں پناہ گزینوں کے کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوئے۔ شام کا بحران اب تک ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد انسانوں کی جان لے چُکا ہے۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں جن بچوں کے انٹرویو شامل کیے گئے ہیں، اُن کے خاندانی نام ظاہر نہیں کیے گئے۔ اس کا مقصد ان بچوں اور ان کے خاندانوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے بین الاقوامی تحفظ کے ادارے کے سربراہ فولکر تُرک نے جنیوا میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’یہ بہت ضروری ہے کہ شام کی جنگ اور بحران کا یہ انسانی پہلو فراموش نہ کیا جائے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ شامی پناہ گزین بچوں کی چہرے اُن کے ملک کی صورتحال کا آئینہ ہیں۔ جو کچھ شام میں ہو رہا ہے وہ ان بچوں کے چہروں سے ظاہر ہے۔
اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق شامی خانہ جنگی کے سبب پناہ گزینوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور 2.2 ملین سے زائد رجسٹرڈ شامی باشندوں میں نصف تعداد بچوں کی ہے جبکہ شام کے پڑوسی ممالک کا کہنا ہے کہ شامی پناہ گزینوں کی تعداد تین ملین تک پہنچ چُکی ہے اور وہ اپنے گھر بار چھوڑ چُکے ہیں۔ اس اعتبار سے شامی پناہ گزین بچوں کی تعداد قریب ڈیڑھ ملین بنتی ہے۔
فولکر تُرک کا کہنا ہے کہ روانڈا کی خانہ جنگی کے بعد سے اب تک شام کی جنگ بے مثال بحران ثابت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’گزشتہ 20 برسوں کے عالمی تنازعات پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ روانڈا کے بعد شام کی خانہ جنگی جیسی کوئی مثال نہیں ملتی۔‘‘ فولکر تُرک کا اشارہ 1994ء میں افریقی ملک روانڈا میں ہونے والے قتل عام کی طرف تھا۔
انہوں نے شامی خانہ جنگی کے باعث اپنے گھروں سے محروم ہو کر ملک کے کسی دوسرے علاقے میں پناہ لینے پر مجبور بچوں کی صورتحال کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ ان کے بقول ملک کے اندر ہی پناہ گزینوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور بچوں کی تعداد اُن 6.5 ملین شامی پناہ گزینوں کا نصف حصہ بنتی ہے جو اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر ملک کے اندر ہی کسی جگہ پناہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
اقوام متحدہ کی شائع کردہ اس رپورٹ میں نہ صرف بچوں کے زبانی بیانات اور انٹرویو شامل ہیں بلکہ آگ اور خون سے عبارت اپنی یادوں کو انہی بچوں نے رنگوں کے ذریعے کاغذ پر خاکوں کی شکل میں بھی پیش کیا ہے۔ شامی پناہ گزین بچوں کی طرف سے بنائی گئی ان تصاویر میں سے اکثر میں انہوں نے اپنے ہم وطنوں کو گھٹنوں تک خون میں ڈوبے ہوئے دکھایا ہے۔