صدر اوباما اور اسرائیلی، فلسطینی تنازعہ: عملی کارکردگی کا وقت
5 مارچ 2013اس کے علاوہ واشنگٹن کی طرف سے اسرائیل کی یہی تائید و حمایت عرب ریاستوں میں سلامتی کی صورت حال کو نقصان پیہنچانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ Pew اور Gallup نامی اداروں کے تازہ جائزوں سے پتہ چلا ہے کہ کئی مسلمان ملکوں میں امریکا مخالف سوچ میں باراک اوباما کے پہلی بار صدر بننے کے بعد سے اب تک کافی اضافہ ہوا ہے۔ ان جائزوں میں اکثر رائے دہنگان نے امریکا کے لیے اپنی مخالفانہ سوچ کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی کہ واشنگٹن ہمیشہ اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔
باراک اوباما چند ہفتوں بعد امریکی صدر کے طور پر اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کا جو اپنا پہلا دورہ کریں گے، اس دوران صرف تصویریں اتروانے اور اچھے بیانات دینے سے زیادہ کی توقع کی جا رہی ہے۔ عربوں نے یہ تقریریں پہلے بھی سنی ہیں اور یہ تقریریں نوجوان نسل کے لیے اب کسی دلچسپی کا باعث نہیں رہیں۔
چار سال قبل امریکی صدر اوباما نے کہا تھا کہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ اسی طرح جاری نہیں رہ سکتا۔ اب اگر فلسطینیوں کو آزادی اور وقار کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو اس تنازعے کے حل کا وقت ابھی ہے، اسی وقت۔ اس کے علاوہ اگر اسرائیل چاہتا ہے کہ اسے خطے کی ایک محفوظ ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے اور اگر امریکا مشرق وسطیٰ کے نئے سیاسی دور میں بھی اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا چاہتا ہے، تو اسرائیلی فلسطینی تنازعہ بلا تاخیر حل کیا جانا چاہیے۔
حالیہ عشروں کے دوران اسرائیل کے لیے امریکی حمایت نے اسرائیلی مفادات کا بھی کافی دھیان رکھا اور علاقے میں امریکی مفادات کو بھی زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ عرب دنیا میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں خطے کی کئی مغرب نواز حکومتیں ختم ہو چکی ہیں اور کئی دیگر کو خطرہ ہے۔ سیاسی اسلام مصر اور دوسرے ملکوں میں اقتدار میں آ چکا ہے۔ نئی عرب حکومتیں اب اپنے عوام کی بات سننے لگی ہیں۔ اسی لیے اب ماضی میں سکیورٹی کا نام لے کر کام کرنے والی ریاستوں میں بھی عوامیت پسند سیاست نظر آنے لگی ہے۔
اسرائیل کو بھی آبادی میں بڑی تبدیلیوں اور نئے مذہبی اور سیاسی حقائق کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ یورپی لبرل سیکولرازم جس کے حامی اسرائیل میں عشروں تک اقتدار میں رہے، اپنی حیثیت کھو چکی ہے۔ اب یہ جگہ چھوٹی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کی جانے والی انتہا پسندانہ سیاست نے لے لی ہے۔
رملا میں فلسطینی انتظامیہ میں کرپشن کی کوئی کمی نہیں اور اس کی کارکردگی بھی مؤثر نہیں ہے۔ فلسطینی انتظامیہ دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور وہ داخلی طور پر عوام کی کلی حمایت کی حامل بھی نہیں ہے۔ عوامی جائزوں اور میڈیا رپورٹوں کے مطابق اسرائیل کے لیے تائید و حمایت خطے میں امریکا کے بارے میں پائی جانے والی منفی سوچوں کو ہوا دے رہی ہے۔ جو دیگر عوامل یا پالیسیاں امریکا دشمنی میں اضافے کی وجہ بن رہی ہیں، ان میں ڈرون حملے بھی شامل ہیں اور امریکا کی شام کی خانہ جنگی میں شامی عوام کی تکالیف سے لاتعلقی بھی۔ اس کے علاوہ فلسطینی زیادہ سے زیادہ بے صبری اور ناامیدی کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں۔ لیکن اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری اور تعمیرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسے ان اقدامات پر واشنگٹں کی طرف سے اپنی مذمت کا کوئی خوف نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے آئی پی ایس نے اس موضوع پر اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ امریکی صدر اوباما اور دوسری مدت صدارت کے دوران ان کی خارجہ پالیسی سے متعلق ٹیم کو اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں بڑے تخلیقی انداز میں سوچنا ہو گا۔ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا عمل چند عرب اور مغربی حکومتوں کے لیے ایک ایسے خواب سے زیادہ کچھ بھی نہیں جس سے وہ ابھی تک غیر حقیقت پسندانہ انداز میں چمٹے ہوئے ہیں۔
اب اگر امریکا اس تنازعے میں اپنی پوزیشن پر نئے سرے سے غور کر رہا ہے، تو اسے نئے سیاسی دور اور حقائق کو بھی سامنے رکھنا ہو گا اور اس بات کو بھی کہ اب عملی اقدامات کا وقت ہے۔
ij / ia ( IPS)