شمیما بیگم کی برطانوی شہریت منسوخ کرنے کا معاملہ متنازعہ
6 مارچ 2019برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کے ترجمان نے کہا ہے کہ شمیما بیگم کی برطانوی شہریت ’ناقابل تردید ثبوت‘ اور سلامتی کی وجوہات کی بنا پر منسوخ کی گئی ہے اور ’’یقینا یہ اہم فیصلہ بغیر وجہ کے نہیں کیا گیا‘‘۔ اس تناظر میں یہ بحث بھی زور پکڑتی جا رہی ہے کہ خانہ جنگی میں شامل رہنے والے جنگجؤں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ کیا کیا جائے۔
شمیما بیگم ابھی حال ہی میں شام کے ایک مہاجر کیمپ میں منظر عام پر آئیں۔ انیس سالہ شمیما بیگم نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ گھر واپس جانا چاہتی ہیں۔ تاہم بظاہر اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ دینے پر شرمندگی کا اظہار نہ کرنے کی وجہ سے برطانیہ میں ان پر تنقید کی جا رہی ہے اور ان کے اہل خانہ نے بھی اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید کے کہنے پر شمیما بیگم کی شہریت منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ساجد کے بقول وہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں کریں گے، جس سے کسی شخص کی شناخت ہی ختم ہو جائے یعنی اس کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت ہی نہ ہو۔
شمیما بیگم کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس دوہری شہریت نہیں ہے اور شمیما صرف برطانوی شہری ہیں۔ یہ مقدمہ آج کل عدالت میں ہے۔
شمیما کے والد احمد علی کے مطابق، ’’میری بچی صرف پندرہ سال کی تھی جب وہ گھر سے بھاگ گئی تھی۔ وہ اس وقت نابالغ تھی۔ برطانوی حکومت اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے، شمیما کم عمر ہے، نا سمجھ ہے، برطانوی حکومت چاہے اسے واپس بلا کر قانون کے مطابق سزا دے مگر برطانوی شہریت ختم نہ کرے۔‘‘
شمیما بیگم کون ہے؟
شمیما بیگم لندن کے بیتھنل گرین علاقے کے ایک سکول کی ایک ذہین طالبہ تھی۔ تاہم، وہ فروری 2015 میں اپنی دو دوستوں کے ساتھ بذریعہ جہاز لندن سے ترکی گئی اور پھر وہاں سے سرحد عبور کرتے ہوئے خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں داخل ہو کر داعش کی رکن بن گئی۔ انہوں نے ہالینڈ کے ایک شہری سے شادی کی ہوئی ہے۔ شمیما بیگم نے گزشتہ اختتام ہفتہ ایک بچے کو جنم بھی دیا ہے اور ان کے شوہر انہیں اور اپنے بچے کو ہالینڈ لانا چاہتے ہیں۔ شمیما کے شوہر ستائیس سالہ یاگو ریڈییک بھی اسلامک اسٹیٹ کی صفوں میں شامل رہے ہیں۔ تاہم اب وہ آئی ایس سے دوری اختیار کر چکے ہیں اور شام سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔