شمال مغربی پاکستان میں ’یونانی شہر‘ کے کھنڈرات
27 جون 2016دو ہزار سال سے زائد عرصہ پہلے سکندر اعظم جب اپنی فوج کے ساتھ ہندوستان پر حملہ آور ہوا تھا، تو اس کی فوج سوات کی وادی سے گزری تھی، اور اس کے آثار اس قدیمی شہر کے کھنڈرات سے ملے ہیں۔
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کی وادی سوات میں ایک مقام پر کھدائی میں پرانے سکے، ہتھیار اور دیگر سامان ملا ہے۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اس کھدائی کے لیے پاکستانی اور اطالوی ماہرینِ آثار قدیمہ نے مل کر کام کیا۔
ایک پاکستانی ماہر آثار قدیمہ نیاز شاہ کے مطابق، ’’ہم نے تاریخی حوالہ جات اور دیگر کھنڈراتی حقائق سے یہ معلوم کیا ہے کہ یونانی ایک برادری کے طرح اس شہر میں بستے رہے ہیں۔‘‘
بتایا گیا ہے کہ اس قدیمی شہر کے گرد ایک حفاظتی دیوار کے آثار بتاتے ہیں کہ یہ بھی سکندر اعظم کی فوج ہی کی جانب سے تیار کی گئی تھی، جب کہ یہاں اس دور کی بہت سی یادگاری اشیاء بھی ملی ہیں، جن میں ہتھیار اور برتن وغیرہ شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق بعد میں بدھ مت برادری کے اس شہر میں آن بسنے سے یہ شہر یونانی اور ہندوستانی تہذیبوں کا امتزاج بن گیا تھا اور یہ دونوں الگ الگ ثقافتیں ایک دوسرے سے آن ملیں اور ایک نیا رنگ سامنے آیا تھا۔
اس سے قبل شمالی پاکستان میں کوہ ہمالیہ کے دامن میں چار ہزار نفوس پر مبنی ایک برادری کیلاش کو ہی سکندر اعظم ہی کے فوجیوں کی نسلی باقیات قرار دیا جاتا تھا، تاہم سوات کے علاقے میں اس طرز کی یہ پہلی دریافت ہے۔ نیاز شاہ کے مطابق اس علاقے میں جگہ جگہ یونانی تہذیب کے نشانات ملتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس پورے علاقے میں ایسے آثار ملتے رہے ہیں، جو بتاتے ہیں کہ سکندر اعظم کی قیادت میں ہندوستان کی جانب بڑھنے والی یونانی فوج کے راستے پر جگہ جگہ یونانی تہذیب کی یادگاریں ہیں، تاہم یہ ایسا پہلا شہر دریافت ہوا ہے، جسے یونانیوں نے باقاعدہ طور پر منظم انداز سے بنایا تھا۔