شریف فیملی قرضوں پر 350 کروڑ روپے سود بھی ادا کرے، لاہور ہائی کورٹ
8 نومبر 2014یہ ہدایات لاہور ہائی کورٹ کے ایک دو رکنی ڈویژن بینچ کی طرف سے جاری کی گئی ہیں۔ سن 1982ء سے 1998ء کے دوران پاکستان کے نو بڑے بینکوں نے شریف فیملی کی ملکیت اتفاق گروپ کو تین سو اکاون کروڑ روپے کا قرض فراہم کیا تھا، ان بینکوں میں نیشنل بینک آف پاکستان بھی شامل ہے لیکن شریف فیملی یہ قرض واپس کرنے میں ناکام رہی تھی۔
زیادہ تر کیسز میں قرض واپس ہی نہیں کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے بینکوں نے اصل رقم پر مارک اپ چارجز بھی لگائے ہیں۔ نیشنل بینک سمیت دیگر بینکوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل کا کہنا تھا کہ اتفاق گروپ کے چار یونٹس فروخت کرنے کے بعد اصل رقم وصول کر لی گئی ہے لیکن اس پر بننے والے مارک اپ کی رقم ابھی بھی باقی ہے اور عدالت سے یہی استدعا کی گئی تھی کہ وہ یہ حکم جاری کرے کی بلا تاخیر اضافی رقم بھی ادا کی جائے۔ اب عدالت کی طرف سے بھی یہی حکم جاری کیا گیا ہے کہ یہ اضافی رقم بھی فوری طور پر ادا کی جائے۔
اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے نیشنل بینک آف پاکستان اور دیگر بینکوں کی درخواست پر یہ فیصلہ سنایا تھا کہ اتفاق فاؤنڈریز، کوٹ لکھ پت کی برادرز اسٹیل، اتفاق برادرز اور شاہدرہ میں واقع الیاس انٹرپرائزز کو فروخت کر دیا جائے۔ یہ چاروں یونٹ شریف فیملی کی ملکیت تھے۔ شریف فیملی کی طرف سے یہ یونٹ بینک کے واجبات پورے کرنے اور ایڈجسٹمنٹ کے لیے سرینڈر کر دیے گئے تھے۔ اس کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔
دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کئی دہائیوں تک قرض واپس نہ کرنے کے لیے اپنا سیاسی اثرو رسوخ استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ نواز قانون سے بچنے کے لیے ہر ایک کو خریدا کرتے تھے۔‘‘ تحریک انصاف کے سربراہ گزشتہ 80 روز سے اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعظم کے مستعفی ہونے تک احتجاج جاری رکھیں گے۔