شدید گرمی، بنگلہ دیشی گارمنٹ فیکٹری ملازمین بیمار پڑنے لگے
9 جون 2024بنگلہ دیش میں رواں برس اپریل کے اواخر میں ہی درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا تھا۔ فیکٹری ورکرز بشمول بنگلہ دیش کے چالیس لاکھ سے زائد گارمنٹ فیکٹری ملازمین کو گرمی کی شدت سے گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان ملازمین میں خواتین کا تناسب 60 فیصد بنتا ہے۔
22 سالہ عائشہ تالقدار تنیسا ڈھاکہ میں مغربی برانڈز کے لیے ملبوسات تیار کرنے والی ایک فیکٹری میں جینز کی سلائی کا کام کرتی ہیں۔ بنگلہ دیش کے قیام کی 70 سالہ تاریخ میں اتنی شدت کی اور طویل ہیٹ ویو پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔
دارالحکومت ڈھاکہ کے نزدیک ایک گاؤں سے بذریعہ ٹیلی فون بات کرتے ہوئے عائشہ تالقدار نے روئٹرز فاؤنڈیشن کوبتایا،''ہم میں سے کچھ ، جن میں زیادہ تر لڑکیاں ہیں، بیمار پڑ گئی ہیں۔ انہیں متلی آتی ہے یا بے ہوش جاتی ہیں۔‘‘
گرمی کی شدت بنگلہ دیش کی صنعت کے لیے نقصان دہ
ایڈریئن ایرشٹ راکیفیلر فاؤنڈیشن کی طرف سے شائع کردہ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق شدید گرمی کے اثرات کی وجہ سے بنگلہ دیش کی لیبر پروڈکٹیوٹی کو سالانہ 6 بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی ہیٹ ویوز کی شدت اور اس کے بار بار آنے کا سبب بنتی ہے۔ بنگلہ دیش کی اہم ملبوسات کی صنعت کے مالکین اپنے کارکنوں کے تحفظ کے لیے اقدامات پر عمل درآمد کے لیے کیا ہنگامی ایکشن لیتے ہیں؟
بنگلہ دیش انسٹی ٹیوٹ آف لیبر اسٹڈیز کے ڈپٹی ڈائریکٹر میرالاسلام اس بارے میں کہتے ہیں،'' گرمی ملبوسات کی صنعت کے لیے ایک سنگین کاروباری خطرہ ہے۔‘‘
میرالاسلام نے 400 سے زائد گارمنٹ فیکٹری ورکرز کی صورتحال کا جائزہ لیا، جس کے بعد انہوں نے بتایا،''ہر پانچ میں سے کم از کم ایک ورکر کو شدید گرم مہینوں میں صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اُسے بیماری کی وجہ سے چھٹی لینا پڑی اور 32 فیصد کا کہنا تھا کہ جھلستی گرمی اور موسم کی خرابی نے ان کی کام کرنے کی صلاحیتوں کو بہت متاثر کیا ہے۔‘‘
کپڑوں کے چند سرکردہ مینوفیکچررز اپنے مزدوروں کو گرمی سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں لیکن مزدوروں کے حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ کارکنوں کی صحت کے تحفظ اور ان کی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے سپلائرز، برانڈز اور حکومت کی جانب سے زیادہ رقم اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔
شدید گرمی کی مشکلات
صرف فیکٹریوں کو ٹھنڈا رکھنے سے ہی مزدوروں کی حفاظت نہیں ہوتی۔ بنگلہ دیش جیسے ملک میں مزدورں کو اپنے کام کی جگہ تک پہنچنے کے لیے چلچلاتی دھوپ میں لمبا رستہ طے کرنا پڑتا ہے، جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے ذرائع بھی کم ہیں اور چھوٹے چھوٹے تنگ گھروں میں بہت سے لوگ رہتے ہیں۔
کام کی جگہوں پر ان مزدوروں کو زیادہ تر مشترکہ باورچی خانے اور ٹوائلٹ اور باتھ روم کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ایک درزن کی کم از کم ماہانہ اجرت قریب تیرہ ہزار تین سو ٹکا ہے، جو 113 ڈالر کے برابر ہیں۔ اتنی محدود آمدنی میں مہنگا ایئر کنڈیشنگ سسٹم اور جنریٹرز ان مزدورں کی پہنچ سے بہت دور کی بات ہے۔ اس پر بجلی کی کمی، پاور بریک ڈاؤن پنکھوں کو بھی مفلوج کر دیتا ہے۔
کیا کیا جائے؟
گلوبل ورکر ڈائیلاگ (GWD) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر گائے اسٹیورٹ فیکٹری کارکنوں کے حالات کا باقاعدہ سروے کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مزدوروں کے کاموں کے اوقات میں تبدیلی لائی جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فیکٹری ورکرز کی شفٹیں صبح 6 بجے کئے بجائے 8 بجے شروع ہونا چاہیں تاکہ کارکن دوپہر کی گرمی کے عروج پر ہونے سے پہلے ہی لنچ کے لیے جا سکیں۔ انہیں ہلکے سوتی کپڑے اور کولنگ کرنے والے پنکھے فراہم کرنا، ان کی مناسب دیکھ بھال کے طریقے ہو سکتے ہیں۔
جہانگیر عالم تین دہائیوں تک عالمی برانڈز بشمول H&M، Walmart اور ڈنمارک کے برانڈ بیسٹ سیلر کے لیے کام کر چُکے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مذکورہ اقدامات خوش آئند ہیں لیکن حکومت اور سرمایہ کاروں کو بڑھتی ہوئی گرمی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مزید کچھ کرنا چاہیے۔
جہانگیر نے کہا، ''حکومت کو گرمی کے خطرے سے نمٹنے کی حکمت عملی کے لیے ایک قومی لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بڑی اور زیادہ منافع کمانے والی کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ کارکنوں کے تحفظ کے لیے مالی معاونت پر زور دیں۔
ک م/ ع ب(ٹامسن روئٹرز فاؤنڈیشن)