شدت پسندوں کے خلاف عراقی فورسز کی مزاحمت میں اضافہ ہوا ہے، امریکا
18 جون 2014خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سنی شدت پسند گروہ اسلامک اسٹیٹ اِن عراق اینڈ شام نے شمالی عراق میں متعدد شہروں پر جس آسانی سے قبضہ کیا تھا، اس سے واضح ہو گیا تھا کہ عراقی سکیورٹی فورسز نہ صرف عدم حوصلے کا شکار ہیں بلکہ ناقص باہمی رابطے اور ان کی سلامتی کے چینلجز سے نمٹنے کی صلاحیتیں بھی انتہائی کم ہیں۔
امریکی محکمہء خارجہ کی جانب سے منگل کے روز جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ’ہمارے پاس اِس بات پر یقین کرنے کی وجوہات اور واضح اشارے ہیں کہ عراقی فورسز مسلح عسکریت پسندوں کے خلاف مزاحمت اور شہروں کے دفاع میں مضبوطی لائی ہے، خصوصا بغداد کے قرب و جوار کے علاقوں میں۔‘ محکمہ دفاع کے ترجمان ریئر ایڈمرل جان کِربی نے سکیورٹی فورسز کو شیعہ رضاکاروں سے ملنے والی مدد کے حوالے سے بتایا، ’یہ اب واضح دکھائی دے رہا ہے، جیسے وہ بغداد کے دفاع کے لیے پرعزم ہیں۔‘
واضح رہے کہ القاعدہ سے وابستہ اسلامک اسٹیٹ اِن عراق اینڈ شام، عراق کے متعدد شہروں میں شیعہ آبادی کے خلاف حملے کرتی رہی ہے، تاہم چند روز قبل شمالی عراقی شہروں پر اس عسکریت پسند جماعت نے جس تیزی اور آسانی سے قبضہ کیا، اس سے عراقی فوج کی صلاحیت اور اہلیت پر سوال اٹھائے جا رہے تھے۔ عراق کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل پر قبضے کے بعد اس شدت پسند تنظیم نے سنی اکثریت کے حامل شمالی عراق کے دیگر علاقوں پر بھی تیزی سے قبضہ کیا تھا، جس میں سابق عراقی صدر صدام حسین کا آبائی شہر تِکرت بھی شامل ہے۔
گزشتہ ہفتے جان کِربی نے تسلیم کیا تھا کہ پینٹاگون ’یقینی طور پر عراقی سکیورٹی فورسز کی کارکردگی سےناخوش ہوا ہے۔‘ سنی اکثریت کے متعدد شہروں میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار اپنی وردیاں اور ہتھیار چھوڑ کر ان عسکریت پسندوں کے شہر میں داخل ہونے سے قبل ہی فرار ہو گئے تھے۔ عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے اس پر متعدد سینیئر افسران کو برطرف کر دیا تھا اور ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کا حکم دیا تھا۔
ادھر امریکی صدر باراک اوباما نے بغداد میں امریکی سفارت خانے کی حفاظت کے لیے 170 جب کہ کسی غیر متوقع صورتحال سے نمٹنے کے لیے مزید 100 فوجی تعینات کیے ہیں۔ امریکی حکومت سنی شدت پسندوں کے خلاف فضائی حملوں سمیت فوجی کارروائی پر غور بھی کر رہی ہے۔