شامی باشندے اب جرمنی سے واپس جائیں، سابق جرمن وزیر خزانہ
25 دسمبر 2024برلن میں جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے فری ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ کرسٹیان لِنڈنر کا کہنا تھا، ''وہ لوگ جو خانہ جنگی کی وجہ سے ہمارے ملک میں آئے، ان کے لیے اپنے گھر واپسی لازمی قاعدہ ہونا چاہیے۔‘‘
لِنڈنر کے بقول، ''وہ لوگ جو یہاں رہنا چاہتے ہیں، وہ ہمارے امیگریشن قوانین کے تحت مستقل رہائش کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔‘‘
شام ميں آزاد و شفاف انتخابات ضروری ہيں، اقوام متحدہ
ترکی سے شامی باشندوں کی وطن واپسی
جرمنی کے اس سابق وزیر خزانہ کے مطابق جرمنی میں رہنا شفاف طریقہ کار کے مطابق ہونا چاہیے نہ کہ خود بخود ایسا ہو: ''اہم چیز یہ ہے کہ کوئی شخص ملازمت کے ذریعے اپنی (اور اپنے اہل خانہ کی) کفالت خود کر سکتا ہے؟ کیا انہوں نے کوئی جرائم کیے ہیں؟ اور یہ کہ آیا وہ واضح طور پر ہمارے آزاد اور جمہوری آئین کو تسلیم کرتے ہیں؟‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''میزبان معاشرہ ہونے کے ناطے ہمارے پاس حق ہے کہ ہم فیصلہ کریں۔ ہم اپنے سوشل سسٹم میں تارکین وطن کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
جرمنی میں شامی باشندوں کی تعداد قریب ایک ملین
جرمنی کی وزارت داخلہ کے مطابق اس وقت ملک میں 975,000 کے قریب شامی باشندے موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر شامی خانہ جنگی سے فرار ہو کر 2015ء میں جرمنی آئے تھے۔
ان میں سے تین لاکھ سے زائد شامی باشندوں کو 'ثانوی تحفظ‘ حاصل ہے۔ یہ ایک ایسا قانونی تحفظ ہے، جو سیاسی پناہ یا مہاجر کے درجے سے نسبتاﹰ کم ہے اور یہ درجہ انفرادی طور پر ظلم و جبر کے خطرات کے بجائے جنگ کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔
ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) نامی گروپ کی سربراہی میں باغیوں نے رواں ماہ کے آغاز میں شامی صدر بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا تھا اور اسد شام سے فرار ہو کر روس چلے گئے تھے جہاں انہیں اور ان کے خاندان کو سیاسی پناہ دی جا چکی ہے۔ بشار الاسد شام پر دو دہائیوں سے زائد عرصے تک حکمران رہے تھے۔
ایچ ٹی ایس نے اس وقت کے بعد سے دمشق میں ایک عبوری حکومت قائم کر رکھی ہے۔ شام میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد ملک سے باہر پناہ لیے ہوئے شامی باشندے اب اپنے وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔
منگل 24 دسمبر کو ترک وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے بتایا تھا کہ شام میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے کل تک 25 ہزار سے زائد شامی باشندے اپنے وطن واپس جا چکے تھے۔ ترکی میں قریب 30 لاکھ شامی باشندے پناہ لیے ہوئے ہیں اور ان کی وہاں موجودگی ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت کے لیے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
ا ب ا/م م (ڈی پی اے، اے ایف پی)