شام کے لیے ایرانی پروازوں کو روکا جائے، جان کیری کا عراق پر زور
24 مارچ 2013جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق دونوں رہنماؤں نے دو برس سے جاری شامی تنازعے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ عراقی صدر نوری المالکی کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق دونوں فریقین نے ’’شام میں جاری بحران کے سیاسی حل کی ضرورت پر اتفاق کیا تاکہ شامی عوام کو مزید المیوں سے بچایا جا سکے۔‘‘
کیری اتوار 24 مارچ کی صبح غیر اعلانیہ ایک روزہ دورے پر بغداد پہنچے۔ ان کی طرف سے یہ دورہ عراق میں امریکی حملے کے 10 برس مکمل ہونے کے چند روز بعد کیا گیا ہے۔ 2009ء کے بعد کسی امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے کیے جانے والے اس پہلے دورے میں عراق کے سنی اکثریت والے علاقوں میں کئی ماہ سے جاری احتجاجی سلسلے پر بھی بات چیت کی گئی۔ امریکی حکام کو خدشہ ہے کہ یہ احتجاج القاعدہ سے منسلک شدت پسند گروپوں کو جگہ بنانے میں معاون ہو سکتا ہے۔
ملاقات کے دوران کيری نے مالکی پر زور دیا کہ وہ اس بات کو يقينی بنائيں کہ عراقی فضائی حدود سے گزرے والی ايرانی پروازيں شام تک اسلحہ نہ پہنچائيں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے عراقی وزیراعظم نوری المالکی سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میں نے یہ بات وزیراعظم پر واضح کر دی ہے کہ عراق پر سے گزرنے والی ایرانی پروازیں شامی صدر بشار الاسد اور ان کی حکومت کو مضبوط کرنے میں مدد گار ثابت ہو رہی ہیں۔‘‘ کیری کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم کو بتایا ہے کہ عراق جو کچھ کر رہا ہے، امریکی سیاستدان اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر وہ کام جو بشار الاسد کی مدد کرتا ہے ’دقت کا باعث‘ ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی کہ اس معاملے پر پیشرفت ہوگی۔
واشنگٹن کی طرف سے گزشتہ کئی ماہ سے بغداد پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ اس نے ایران کی طرف سے عراقی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے شامی حکومت کے لیے فوجی ساز وسامان بھیجا ہے۔ امریکی حکام کی طرف سے عراق سے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ وہ ایسی پروازوں کو غیر اعلانیہ اور گاہے بگاہے چیک کرے۔
aba/as (AFP, dpa)