شام کے باغیوں میں مسلح چپقلش شدت اختیار کرتی ہوئی
6 جنوری 2014شمالی شام کے مختلف علاقوں میں شامی باغیوں کو القاعدہ سے وابستگی رکھنے والے جہادی جنگجووں کی مسلح مزاحمت کا سامنا ہے۔ اتوار کے روز اِن گروپوں کے درمیان کئی مقامات پر شدید جھڑپوں کو رپورٹ کیا گیا۔ اِن جھڑپوں کا سلسلہ اسی جمعے سے شروع ہوا ہے، جو اب شام کے چار مختلف صوبوں میں پھیل گیا ہے۔ اِن صوبوں میں ارقہ، حما، حلب اور اِدلب شامل ہیں۔ القاعدہ سے وابستگی رکھنے والے جنگجووں کا تعلق اسلامی ریاست برائے عراق و الشرق (ISIl) سے ہے۔ اعتدال پسند باغی اورانتہائی قدامت پسند جہادی مل کر ISIL کے جنگجووں سے لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لڑائی کا خاص مرکز شمالی شامی صوبہ حلب ہے۔
جمعے سے شروع ہونے والی اس لڑائی کی وجہ حلب میں اسلامی ریاست برائے عراق و الشرق کے جنگجووں کی جانب سے ڈاکٹر حسین سلیمان کو ہلاک کرنے کو خیال کیا گیا ہے۔ حال ہی میں ایک نئے قدامت پسند گروپ کا وجود سامنے آیا ہے اور اس کا نام اسلامک فرنٹ رکھا گیا ہے۔ اسی گروپ نے اسلامی ریاست برائے عراق و الشرق سے ڈاکٹر حسین سلیمان کے قاتلوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے بصورت دیگر وہ مسلح کارروائی کے لیے تیار ہے۔ اتوار کے روز اسد حکومت کے مخالف گروپوں کے درمیان لڑائی الرقہ صوبے کے شہر طباقہ میں بھی ہوئی۔
سیرئین آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے مطابق باغی گروپوں کے درمیان لڑائی کا بڑا میدان حلب کے مختلف علاقے ہیں۔ آبزرویٹری کے مطابق حلب شہر کے نواحی قصبے تل رفعت میں اسلامی ریاست برائے عراق و الشرق کے جنگجووں نے مخالف باغیوں کے قافلے پر چھپ کر دھاوا بولا ، جس کے نتیجے میں کم از کم چودہ باغی مارے گئے۔ ہلاک ہونے والے باغیوں کا تعلق انتہائی قدامت پسند گروپ لیوا التوحید بریگیڈ سے تھا، جو نئے جنگی گروپ اسلامک فرنٹ کا حصہ ہے۔
اسی طرح حلب کے ایک اور قصبے عطارب میں کشیدگی اور تناؤ بڑھتا جا رہا ہے اور وقفے وقفے سے فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ حلب کے علاوہ حما اور اِدلب صوبوں میں باغیوں کے اندر جھڑپوں کو رپورٹ کیا گیا ہے۔
اِس دوران شام کے دارالحکومت دمشق کے بڑے نواحی قصبے برزہ میں اتوار کے روز اسد حکومت اور فری سیرئین آرمی کے باغیوں کے درمیان مقامی سطح پر جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ اس معاہدے کے لیے قریبی علاقے کے ثالث ایک سال سے کوشش کر رہے تھے۔ جنگ بندی کی اپوزیشن کی لوکل کونسل نے تصدیق کر دی ہے۔
برزہ پر فری سیرئین آرمی کے کنٹرول کے بعد اِس سارے علاقے کو شامی فوج نے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ اب ڈیل کے بعد لڑائی کی شدت میں کمی واقع ہونے کا بھی بتایا گیا ہے۔ معاہدے کے تحت برزہ کو چھوڑ کر جانے والے شہری اب واپس لوٹ سکیں گے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران برزہ کو حکومتی فوج کی شدید شیلنگ کا سامنا رہا۔ سرکاری نیوز ایجنسی SANA کے مطابق فری سیرئین آرمی اور النصرہ کے دو سو باغیوں نے خود کو سرکاری فوج کے حوالے کر دیا ہے۔
اُدھر ترکی کے شہر استنبول میں شامی اپوزیشن کے قومی اتحاد نے ایک مرتبہ پھر احمد الجربا کو اپنا لیڈر منتخب کر لیا ہے۔ اُن کی قیادت کی مدت چھ مہینوں پر محیط ہے۔ قومی اتحاد کی لیڈر شپ کے انتخاب میں احمد الجربا کو شام کے سابق وزیراعظم ریاض حجاب کا سامنا تھا۔ الیکشن میں الجربا کو 65 اور ریاض حجاب کو 52 ووٹ حاصل ہوئے۔ یہ ووٹنگ اپوزیشن کے قومی اتحاد کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہوئی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ احمد الجربا کو مغربی اقوام کی حمایت حاصل ہے۔