شام میں ہر کسی کے لیے شخصی آزادی کی ضمانت، عبوری حکومت
10 دسمبر 2024خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں عبوری حکومت کی جنرل کمان نے کہا، ''خواتین کے لباس میں مداخلت کرنا یا ان کے لباس یا ظاہری شکل سے متعلق کوئی پابندی عائد کرنا سختی سے منع ہے، جس میں شائستگی (اخلاقی اقدار) کی پیروی بھی شامل ہے۔‘‘
سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد بننے والی شام کی عبوری حکومت کی قیادت نے کہا کہ ملک کی نئی عبوری انتظامیہ اس بات کی توثیق کرتی ہے، ''ہر فرد کو ذاتی حیثیت میں آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے اور یہ کہ افراد کے حقوق کا احترام ایک مہذب قوم کی تعمیر کی بنیاد ہے۔‘‘
بشار الاسد کو ماسکو میں پناہ مل گئی، روسی میڈیا
سال 2011ء میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے شام کی اس وقت کی حزب اختلاف کے زیر اثر علاقوں میں خواتین کی اکثریت مذہبی لباس زیب تن کرتی تھی، جس میں ان کے چہرے اور ہاتھوں کو چھوڑ کر پورا جسم ڈھکا ہوتا تھا۔
تشدد میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا عندیہ
باغیوں کی قیادت کرنے والے گروپ حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے رہنما ابو محمد الجولانی نے پیر کو رات گئے بشار الاسد دور کے سابق وزیر اعظم اور نائب صدر سے ملاقات کی اور ''اقتدار کی منتقلی‘‘ کے انتظامات پر تبادلہ خیال کیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ابو محمد الجولانی نے منگل کے روز کہا کہ عبوری انتظامیہ ایک فہرست کا اعلان کرے گی، جس میں شامی عوام کو اذیت دینے میں ملوث سب سے اعلیٰ عہدیداروں کے نام شامل ہوں گے۔
شام میں اسد دور کے خاتمے پر بین الاقوامی ردعمل، کس نے کیا کہا؟
ابو محمد الجولانی نے ٹیلی گرام پر ایک بیان میں کہا، ''ہم ہر اس شخص کو انعامات کی پیشکش کریں گے، جو جنگی جرائم میں ملوث اعلیٰ فوجی اور سکیورٹی افسران کے بارے میں معلومات فراہم کرے گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ عبوری حکومت جرائم میں ملوث اور ملک سے فرار ہونے والوں کی واپسی کا مطالبہ بھی کرے گی۔
حالات نسبتاﹰ پرسکون
ملک گیر کرفیو کے حکم کے بعد پیر کو ملک بھر میں زیادہ تر دکانیں اور دفاتر بند رہے، لیکن خبر رساں ادارے روئٹرز نے شام کے مرکزی بینک کے ایک ذریعے اور دو کمرشل بینکرز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بینک منگل کو دوبارہ کھلیں گے اور عملے کو دفاتر میں واپس آنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تیل کی وزارت نے اس شعبے کے تمام ملازمین سے منگل سے اپنے کام کی جگہوں پر واپس آنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزارت نے مزید کہا کہ ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔
دمشق میں شہریوں کی آمد و رفت دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ بیکریوں اور کھانے پینے کی دیگر دکانوں کے سامنے لمبی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔ کچھ علاقوں میں مسلح افراد کے چھوٹے گروپ سڑکوں پر تعینات ہیں۔
شام کے مختلف حصوں میں بہت سے خاندان اب جیلوں، سکیورٹی دفاتر اور عدالتوں کے باہر اپنے ان پیاروں سے متعلق خبروں کے منتظر ہیں، جو ماضی میں قید ہوئے یا لاپتہ ہو گئے تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے دیگر گروپوں کا کہنا ہے کہ ان کے اندازوں کے مطابق 2011ء سے 2016ء کے درمیان 13,000 شامی شہریوں کو ہلاک کیا گیا۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں کیا گیا فیصلہ
بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان نے پیر کی شب شام کی موجودہ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا اور مزید پیش رفت کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔
روئٹرز کے مطابق اقوام متحدہ میں روس کے سفیر واسیلی نیبنزیا نے صحافیوں کو بتایا، ''میرے خیال میں سلامتی کونسل شام کی علاقائی سالمیت اور وحدت کو برقرار رکھنے، شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے، انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر کم و بیش متحد تھی۔‘‘ ماسکو نے ہی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کی درخواست کی تھی۔
روسی مندوب نے مزید کہا، ''حالیہ واقعات نے سب کو حیران کر دیا، اس لیے ہمیں یہ دیکھنے کے لیے کہ حالات کس رخ کروٹ لیتے ہیں، انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘
نائب امریکی سفیر رابرٹ ووڈز نے کہا، ''کسی کو توقع نہیں تھی کہ شامی افواج تاش کے پتوں سے بنے گھر کی طرح گر جائیں گی۔‘‘
ووڈز نے کہا، ''صورت حال انتہائی غیر واضح ہے اور امکان ہے کہ یہ تیزی سے رخ بدلے گی۔ سلامتی کونسل کے ہر ایک رکن نے شام کی خود مختاری، علاقائی سالمیت، اس کی آزادی کے احترام کی ضرورت اور وہاں انسانی صورت حال پر تشویش سے متعلق بات کی۔‘‘
ج ا ⁄ م م (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)