شام میں طاقت ور ٹرک بم دھماکے میں ’پچپن افراد ہلاک‘
27 جولائی 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سرکاری میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ ترک سرحد کے قریب واقع شمال مشرقی شام کا شہر قامِشلی زیادہ تر کُردوں کے کنٹرول میں ہے تاہم اس شہر میں دمشق حکومت کی افواج بھی موجود ہیں، جو شہر کے ایئر پورٹ کو کنٹرول کرتی ہیں۔
دہشت گرد ملیشیا ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک ٹرک بم حملہ تھا، جس کے ذریعے قامِشلی میں کُرد دفاتر والے ایک کمپلیکس کو نشانہ بنایا گیا۔
ابتدائی طور پت کہا گیا تھا کہ یہ دوہرا حملہ تھا تاہم بعد ازاں معلوم ہوا کہ بم دھماکے کی زد میں ایک گیس ٹینکر بھی آ گیا تھا اور دوسرا دھماکا اسی ٹینکر کی وجہ سے ہوا تھا۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس اور شہری انتظامیہ نے بھی کہا ہے کہ بم دھماکا ایک ہی تھا۔ طبی ذرائع نے کہا ہے کہ ڈیڑھ سو سے زائد زخمیوں میں سے متعدد کی حالت نازک ہے، اس لیے ہلاکتوں میں اضافے کا اندیشہ ہے۔
آبزرویٹری کے مطابق دھماکے کے بعد امدادی کارکن فوری طور پر جائے حادثہ پر پہنچ گئے تھے، جہاں سے زخمیوں اور لاشوں کو ہسپتالوں میں منتقل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔
عینی شاہدین نے اے ایف پی کو بتایا کہ دھماکا اتنا شدید تھا کہ قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔ بتایا گیا ہے کہ بہت سے افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، جنہیں نکالنے کی کوشش جاری ہے۔
آبزرویٹری کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس ٹرک بم حملے میں الحسکہ صوبے میں واقع وزارت انصاف اور کرد داخلی سکیورٹی فورس کے دفتر کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ قامشلی میں ہوئے اس حملے کو اس علاقہ میں ہونے والی ایک خونریز ترین کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔
انتہا پسند تنظیم داعش نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس شدت پسند تنظیم کی نیوز ایجنسی اعماق نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ داعش کے ایک جنگجو نے کیا۔
کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹ YPG کے فائٹرز شام میں فعال اس جنگجو گروہ کے خلاف کارروائیوں میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔ داعش اپنے پرتشدد حملوں میں شامی فورسز اور اعتدال پسند باغی گروہوں کے علاوہ اس کرد یونٹ کو بھی نشانہ بناتی رہتی ہے۔