شام میں امریکی پائلٹ کا ایک لمحہ، ایک مشکل فیصلہ
28 اگست 2017چار بچوں کے والد امریکی پائلٹ رینکن شام میں ایف پندرہ ای اسٹرائیک ایگل لڑاکا طیارہ اڑا رہے تھے، جب ان کا سامنا ایرانی ساختہ ڈرون سے ہوا، جو امریکی حمایت یافتہ شامی باغیوں کے خلاف کارروائی میں مصروف تھا۔
امریکی پائلٹ کے مطابق اس ڈرون کی جانب سے شامی باغیوں پر کیا گیا پہلا حملہ ناکام ہوا اور یہ طیارہ دوبارہ حملے کے لیے پر تولنے لگا، تو آٹھ جون کو شام میں جاری لڑائی میں امریکا کی جانب سے ایک غیرعمومی رخ اختیار کیا گیا۔ رینکن نے اس ایرانی ساختہ ڈرون کو مار گرایا، حالاں کہ اس وقت فضا میں دو روسی لڑاکا طیارے یہ سارا منظر کچھ ہی فاصلے سے دیکھ رہے تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز سے اپنے ایک انٹرویو میں رینکن نے بتایا، ’’جب ہم نے دیکھا کہ یہ ڈرون حملے کے لیے پرتول رہا ہے اور ہم پر بھی حملہ کر سکتا ہے، تو پھر ہمیں کسی اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم نے اسے تباہ کر دیا۔‘‘
شہید 129 نامی اس ایرانی ساختہ ڈرون کو مار گرائے جانے کا یہ واقعہ جون میں پیش آنے والے اس طرز کے متعدد واقعات میں سے ایک تھا۔ ان واقعات کو شامی تنازعے کی نئی جہت متعین کرنے سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے۔
رینکن اور دیگر امریکی پائلٹوں کی جانب سے لیے گئے ان فیصلوں، جن میں دو ڈرونز اور ایک شامی لڑاکا طیارے کی تباہی پر نہ تو شامی فورسز کی جانب سے اس انداز کا کوئی ردعمل سامنے آیا اور نہ ہی ایرانی ڈرونز کی طرف سے۔ امریکی حکام کے مطابق ان واقعات نے ایران اور شام کو ایک واضح پیغام دے دیا ہے۔
تاہم روئٹرز کے مطابق رینکن کی جانب سے ایرانی ڈرون مار گرائے جانے کا واقعہ شامی تنازعے سے جڑے ان بے شمار خطرات کی بھی نشان دہی کرتا ہے، جہاں ایک ہی علاقے میں امریکا، روس، شام اور دیگر ممالک کے طیارے کارروائیاں کر رہے ہیں اور کوئی بھی ناخوش گوار واقعہ اس تنازعے کی سنگینی میں کئی گنا اضافہ کر سکتا ہے۔