سینیٹ میں ڈیموکریٹس کی دو تہائی اکثریت ختم
21 جنوری 2010میساچوسیٹس میں امریکی سینیٹ کی خالی نشست پر ضمنی الیکشن کے نتائج اتنے دور رس ہوں گے کہ اس حوالے سے کسی کو بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ انتخابی مہم کے عین آخری مرحلے میں خود صدر اوباما نے بھی رائے عامہ کو ڈیموکریٹک پارٹی کی خاتون امیدوار مارتھا کوکلی کے حق میں کرنے کے لئے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میساچوسیٹس میں سینیٹ کا الیکشن امریکہ میں قومی سیاست کی آئندہ سمت کا تعین کرے گا: آگے کی جانب یا پھر پیچھے کی طرف۔
میساچوسیٹس میں رائے دہندگان نے اس الیکشن میں اپنا فیصلہ قومی سیاست میں پیچھے کی طرف سفر کے حق میں دیا۔ اب امریکی سینیٹ میں ری پبلکن ارکان کو اپنے مجموعی طور پر اکتالیس ووٹوں کے ساتھ ایسی طاقتور اقلیتی حیثیت حاصل ہو گئی ہے کہ وہ صحت کے شعبے میں جامع اصلاحات کے مجوزہ پروگرام کو بھی روک سکتے ہیں، ڈیموکریٹک ارکان کو ہر معاملے میں مصالحتی بنیادوں پر قانون سازی پر مجبور کر سکتے ہیں اور کسی بھی مسئلے پر ایوان میں رائے شماری کا راستہ بھی روک سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ڈیموکریٹک ارکان ایوان میں اپنی بہت بڑی اکثریت کے باوجود اپنے طور پر کوئی بھی نیا قانون منظور نہیں کروا سکتے۔ یہ صورت حال صدر اوباما کے ملک میں سیاسی اور سماجی اصلاحات کے ان جملہ منصوبوں کو بھی متاثر کرے گی جن پر وہ سال رواں کے دوران عمل کرنا چاہتے تھے۔
بات چاہے صحت عامہ کے شعبے میں اصلاحات کی ہو، بینکاری کی صنعت کی زیادہ سخت نگرانی کی یا امریکہ آنے والے تارکین وطن سے متعلق نئی قانون سازی کی، اب صدر اوباما کا پورے کا پورا ترقی پسندانہ سیاسی ایجنڈا مشکوک نہیں تو بہت سست رفتار ہو گیا ہے۔
خود میساچوسیٹس کے نومنتخب سینیٹر سکاٹ براؤن نہ صرف پبلک ہیلتھ سسٹم میں اصلاحات بلکہ غیر قانونی تارکین وطن کے لئے ممکنہ معافی کے بھی خلاف ہیں۔ اس کے علاوہ مشتبہ دہشت گردوں سے تفتیش کے دوران اختیار کئے جانے والے طریقوں کے حوالے سے بھی سکاٹ براؤن صدر اوباما کی سوچ کے خلاف ہیں اور واٹر بورڈنگ کے طریقہ کار کے حامی ہیں۔ یہ سب عوامل ثابت کرتے ہیں کہ وہ سینیٹ میں اپنی موجودگی کو زیادہ سے زیادہ حد تک اوباما انتظامیہ کی پالیسیوں کے خلاف استعمال کرنے کو کوشش کریں گے۔
امریکہ کی مشرقی ریاست میساچوسیٹس میں ملکی سینیٹ کی یہ سیٹ سینیٹر ایڈورڈ کینیڈی کے انتقال کے نتیجے میں خالی ہوئی تھی۔ سینیٹ کے الیکشن کے حوالے سے یہ ریاست عشروں تک ڈیموکریٹک پارٹی کی طاقت کا مرکز سمجھی جاتی تھی، جہاں اب ووٹروں کی اکثریت نے ری پبلکن پارٹی کی حمایت کر دی ہے۔
اس انتخابی ناکامی کے بعد صدر اوباما اب جلد از جلد اس دھچکے کے اثرات سے باہر نکلنے کی کوشش کریں گے، تاکہ جہاں تک ممکن ہو مؤثر طور پر حکومت کر سکیں۔ تاہم میساچوسیٹس کے انتخابی نتائج نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ صدر اوباما ملک میں بنیادی سیاسی تبدیلیوں کا جو ایجنڈا لے کر چل رہے تھے، وہ اب قابل عمل نہیں رہا۔
تحریر: کرسٹینا بیرگمن / مقبول ملک
ادارت: عدنان اسحاق