سیلاب ماحول کو کیسے متاثر کرتا ہے؟
8 جون 2024مسلسل بارشوں کے سبب دریا میں طغیانی اور گھروں میں پانی بھرنے جیسے واقعات عام ہوتے جا رہے ہیں، اس لیے یہ تصور کرنا کہ سیلاب بھی ممکنہ طور پر فائدے مند ثابت ہو سکتا ہے، کافی مشکل ہے۔ یورپی یونین میں آب ہوا سے متعلق سن 1980 اور 2022 کے درمیان ریکارڈ کیے گئے تمام واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے زبردست معاشی نقصان پہنچا ہے۔
جنوبی جرمنی میں سیلاب: ہر جانب تباہی کا منظر
پھر بھی قدرتی طور پر غیر تعمیر شدہ ماحول کے لیے اس کے نتائج ہمیشہ منفی بھی نہیں ہوتے ہیں۔
پاکستان میں گرمی کی لہر، سینکڑوں متاثرہ افراد ہسپتالوں میں
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر میں گلوبل واٹر پروگرام کے ڈائریکٹر جیمز ڈالٹن کا کہنا ہے کہ حقیقت میں عام ماحولیاتی عمل کے لیے مٹی کے غذائی اجزاء کی تقسیم جیسے بہت سے ماحولیاتی نظام سیزن کے بڑھتے ہوئے پانی پر منحصر ہوتے ہیں۔
افغانستان: شدید بارشوں اور سیلاب سے سینکڑوں افراد ہلاک
ان کا کہنا ہے، ''ہم غذائیت کے بہاؤ کی مسلسل فراہمی کے لیے دریا کے نظام کا استعمال کرتے ہیں جو دریا کے نیچے والے ماحولیاتی نظام کو بھی مزید افزودہ کرتا ہے، تاہم یہ سمندری راستوں اور ڈیلٹا میں بھی بہتا ہے، جو حیاتیاتی پیداواری کے لحاظ سے دنیا میں پائے جانے والے سب سے اہم حصے ہیں۔''
دبئی میں سیلابی صورتحال کی وجہ مصنوعی بارش؟
وہ مزید کہتے ہیں، ''ہمیں سیلاب کی ضرورت ہے کیونکہ وہ تلچھٹ کو نیچے بہاتے ہیں، وہ غذائی اجزاء کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور کچھ خاص انواع کو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے جاتے ہیں، جو انتہائی اہم ہیں۔''
سیلابی پانی تلچھٹ اور غذائی اجزا کو اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے، جو ایک بھرپور قدرتی کھاد فراہم کرتے ہیں، مٹی کے معیار کو بہتر بناتے ہیں اور پودوں کی نشوونما کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ ایک وجہ ہے کہ بہت سے قصبے اور شہر دریاؤں کے آس پاس پروان چڑھے ہیں۔ بہت اہم ضروری پانی اور سامان کی نقل و حمل کا ذریعہ فراہم کرنے کے ساتھ ہی سیلاب سے جمع ہونے والے غذائی اجزاء کاشتکاری کے لیے بھی زرخیز زمین کا کام کرتے ہیں۔
زیر زمین پانی کے بھرنے اور اس کی فراہمی کے لیے بھی سیلاب مفید ہوتا ہے۔ بعض خطوں میں تو یہ عمل قدرتی طور پر ہوتا ہے، تاہم کیلیفورنیا میں حکام زیر زمین قدرتی ذخائر کو دوبارہ بھرنے میں مدد کرنے کے لیے اضافی سیلاب کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، تاکہ خشک سالی کے دور کے لیے پانی کو ذخیرہ کیا جا سکے۔
جب سیلاب جنگلی حیات کے لیے مسئلہ بن جائے
لیکن چیزوں کی فطری ترتیب سے ہٹ کر سیلاب کے اثرات اتنے فائدے مند نہیں ہوتے، کیونکہ عالمی درجہ حرارت مسلسل بڑھتا جا رہا ہے اور جس کی وجہ سے دنیا کے بہت سے حصوں میں بھاری بارش ہوتی رہتی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ: پاکستان میں 29 افراد ہلاک
ڈالٹن کہتے ہیں، ''ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیلاب زیادہ تباہ کن ہوتا جا رہا ہے اور زیادہ دیر تک رہتا ہے۔ بارشوں میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے اس کے اثرات بہت تیز تر ہوتے جا رہے ہیں اور اس کے اثرات حیاتیاتی تنوع پر بھی پڑ رہے ہیں۔''
موسمیاتی تبدیلیاں یورپ میں خطرے کی گھنٹی بج گئی
جنگلات کی زندگی پر سیلاب کے سب سے واضح اثرات میں سے ایک تو یہ ہے کہ کچھ انواع تیزی سے بڑھتے ہوئے پانی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سن 2012 میں سینکڑوں جانور، بشمول خطرے سے دوچار ایک سینگ والے گینڈے، اس وقت ہلاک ہو گئے جب بھارت کے شمال مشرقی قاضی رنگا نیشنل پارک شدید سیلاب کی زد میں آ گیا۔
اگر جانور سیلاب سے فرار ہونے میں کامیاب بھی ہو جائیں، تو بھی سیلاب ان کے رہائش گاہوں اور افزائش گاہوں کو تباہ کر سکتا ہے۔
کاشتکاری میں استعمال میں آنے والی کیڑے مار ادویات، صنعتی کیمیکلز یا سیوریج پر مشتمل سیلابی پانی سے پودے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ اگر جانور آلودہ پودے کھاتے ہیں، تو وہ زہریلے مادوں اور نجاستوں کا شکار ہو جاتے ہیں، جو بعد میں ان کے فوڈ چین میں بھی داخل ہو جاتے ہیں۔
ضروری خوراک اور ماحولیاتی وسائل کا خاتمہ
گرچہ کچھ مٹی کو سیلاب سے فائدہ ہوتا ہے، لیکن تیزی سے بہنے والا پانی مٹی پر بھی زیادہ تباہ کن نقوش چھوڑتا ہے، جو ممکنہ طور پر غذائیت سے بھرپور زمین کے اوپری حصے کو پانچ سے 10 سینٹی میٹر تک کو صاف کر دیتا ہے۔
جرمنی میں پائیدار زراعت کے مشیر مائیکل برجر کا کہنا ہے کہ ''تصور کریں کہ آپ کے پاس سیلاب کا واقعہ ہوتا ہے اور اوپر کی مٹی سیلاب سے بہہ جاتی ہے اور کچھ نہیں بچتا۔ تو مٹی اب بھی ہے لیکن سب سے قیمتی اوپر کا حصہ ختم ہو چکا ہے۔''
وہ کہتے ہیں، ''اسے (مٹی کو) انسان دوبارہ نہیں بنا سکتے اور یہ خوراک پیدا کرنے کی اہم بنیاد ہے۔''
دنیا کی بہت سی حیاتیات سے بھرپور رہائش گاہوں کی طرح ہی مٹی بھی حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے بہت ضروری ہے۔ ایک جرمن مطالعے کے مطابق صحت مند زمین جنگلات سے بھی زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ذخیرہ کر سکتی ہے۔''
مٹی کا کٹاؤ رہائش گاہوں اور مناظر کو تباہ کرتا ہے، لیکن جب سیلاب کے بڑے واقعات ہوتے ہیں تو زمین کو پانی جذب کرنے سے بھی روکتا ہے، جس سے مسئلہ اور بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ''ہمیں آب و ہوا کے بحران سے ہم آہنگ ہونے کے لیے صحت مند مٹی کی ضرورت ہے۔ وہ فی ہیکٹر 3,750 ٹن پانی ذخیرہ کر سکتی ہیں اور ضرورت کے مطابق اسے دوبارہ چھوڑ سکتی ہیں۔''
ماحولیاتی نظام کو سیلاب سے بچانے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
ڈالٹن کا کہنا ہے کہ سیلاب کے اثرات کو محدود کرنے کے طریقے موجود ہیں اور یہ کہ ''بہت سی وجوہات ایسی ہیں کہ جن کی وجہ سے سیلاب زیادہ خراب ہوتے جا رہے ہیں، وہ یہ ہیں کہ ہم نے سیلاب کے پانی کے راستے میں اشیاء کھڑی کر دی ہیں یا ہم نے سیلاب کے میدانوں میں چیزیں ڈال رکھی ہیں۔''
دنیا بھر کے شہروں میں سستی مکانات کی کمی کی وجہ سے بہت سی تعمیری کمپنیوں کو سیلاب کے میدانوں پر مکان تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ممکنہ طور پر خطرناک جگہوں پر مکانات اور کاروبار بڑھ رہے ہیں۔
ڈالٹن کہتے ہیں، ''دریاؤں کے کام کرنے کے طریقے کار کو دوبارہ تشکیل دینے کے ساتھ ہی اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے کہ انہیں آپس میں دریاؤں کو کیسے مربوط کیا جائے۔ دریاؤں کو ان کے سیلابی میدانوں سے جوڑنا، زمینی سطح کے پانی کو اندر کے پانی سے جوڑنا ضروری ہے کیونکہ یہ سب مؤثر طریقے سے پانی کو بہنے دینے کا نیٹ ورک ہے۔
زراعت کو صنعتی طریقوں سے ہٹ کر زرعی جنگلات جیسے طریقوں کے حسب سے متنوع بنانا بھی سیلاب کے اثرات کو روک سکتا ہے۔
برجر کہتے ہیں، ''جب آپ کے پاس سیلاب کا واقعہ ہو، تو یہ پانی کی رفتار کو کم کیا جا سکتا ہے اور پانی جتنا آہستہ چل رہا ہوگا، آپ کے پاس کٹاؤ اتنا ہی کم ہوگا۔''
انہوں نے کہا کہ ''ہمیں بطور انسان موسمیاتی تبدیلی کا سامنا اس کے تمام سیلابی واقعات یا خشک سالی کے واقعات کے ساتھ کرنا چاہیے، ہمیں یقینی طور پر ہر جگہ کنکریٹ ڈالنے کی بجائے فطرت پر مبنی حل تلاش کرنا چاہیے اور اس بات پر یقین نہیں کرنا چاہیے کہ ہم اپنی ٹیکنالوجی سے ہر چیز حل کر سکتے ہیں۔''
ص ز/ ج ا (ایجنسیاں)