سیاسی پناہ کی تلاش اور مذہب کی تبدیلی
1 جون 2021کیا جرمنی ایسے پناہ گزین ایرانیوں کو ملک بدر کر سکتا ہے، جنہوں نے جرمنی میں اسلام ترک کر کے مسیحیت قبول کر لی ہو؟ اس بات پر جرمنی میں شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ برلن کے آزاد پروٹسٹنٹ لوتھیرین چرچ کے پادری گوٹفریڈ مارٹنز نے وفاقی جرمن دفتر برائے ترک وطن و مہاجرین BAMF پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے سطحی اور ترش رو قرار دیا۔ ادھر BAMF (بامف) کی نائب صدر اُرزُولا گریفن پراشما نے پادری گوٹفریڈ مارٹنز کی تنقید رد کرتے اور اپنے ادارے کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، ''ہمارے اس دفتر میں ہر ملک سے متعلق اعداد و شمار اور معلومات موجود ہوتی ہیں، جو ہمارے فیصلہ سازی کے عمل پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ ایران میں مسیحی عقیدے کی پیروی کرتے ہوئی مذہبی سرگرمیاں اور مذہب کی تبدیلی دونوں ہی ظلم و تعاقب کا باعث بن سکتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی ایک کیس کسی دوسرے سے مختلف ہو سکتا ہے۔ شہروں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں خطرات کہں زیادہ ہیں۔ وہاں مسیحی مبلغین کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں۔ لہٰذا ایران میں مسیحیوں پر ظلم و ستم ہوتا ہے مگر ہر مسیحی باشندے کو اس کا شکار نہیں بنایا جاتا۔‘‘ بامف کی نائب صدر کے مطابق ایران میں تسلیم شدہ گرجا گھروں کے اراکین، جیسے کہ آرمینیائی نسل کے باشندے، بمشکل ان مسائل کا شکار ہیں۔ اس صورتحال کا انحصار متعلقہ انسانوں کی انفرادی صورت حال پر ہوتا ہے۔
مزید چھبیس افغان مہاجرین جرمنی بدر
جرمنی آ کر مسیحیت اختیار کرنا
بہت سے ایرانی باشندے جرمنی بطور مہاجرین آتے ہیں اور یہاں آکر مسیحی بن کر بپتسمہ لے لیتے ہیں۔ اس بارے میں بامف کی نائب صدر اُرزُولا گریفن پراشما کا کہنا ہے کہ تبدیلی مذہب یقیناً سیاسی پناہ کے حصول کے طریقہ کار کے لیے ایک اہم عنصر ہے اور پناہ کی درخواست پر فیصلے میں بھی اس کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ لیکن یہ سارے معاملات انفرادی کیسز میں علیحدہ علیحدہ طریقے سے نمٹائے جاتے ہیں۔ یہ دو مختلف طرح کی صورتحال ہوتی ہے، کسی کا جرمنی آ کر بپتسمہ لینا، خاص طور پر کسی ایسے شخص کا، جس کی پناہ کی پہلی درخواست مسترد ہو چکی ہو یا کوئی بعد میں اپنے مذہب کی تبدیلی کو سیاسی پناہ کے لیے بطور وجہ پیش کرے۔ یہاں تک کہ جرمنی آ کر مذہب کی تبدیلی کے معاملے کی بھی بہت باریکی سے چھان بین کی جاتی ہے کہ کہیں یہ محض سیاسی پناہ کے حصول کے لیے جواز کے طور پر تو پیش نہیں کیا جا رہا۔
سیاسی تعاقب کے شکار ایرانی باشندے ترکی سے ملک بدر
بامف کی نائب صدر کا کہنا ہے کہ اس سارے طریقہ کار کا مقصد درخواست دہندہ کی مذہبی شناخت کی اصل نوعیت کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ یہ نا تو کسی کے عقیدے کا امتحان ہے اور نا ہی اس طرح کی کوئی اور وجہ، محض یہ واضح کرنا ضروری ہوتا ہے کہ اگر ایسے کسی انسان کو اپنے آبائی ملک واپس جانا پڑے، تو کیا وہاں اسے حقیقی معنوں میں ظلم و ستم اور خطرات کا سامنا ہوگا؟ تمام دلائل اور حقائق سامنے رکھنے کے بعد درخواست گزار کی زندگی کی صحیح صورتحال سامنے آتی ہے، جس کے بعد اسے جرمنی میں تحفظ فراہم کرنے یا نا کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
ک م / م م (کرسٹوف اشٹرک)