سویڈن اسانج کا مقدمہ جلد نمٹائے، ایکواڈور
17 جولائی 2014ایکوڈور کے وزیر خارجہ ریکارڈو پٹینو نے اپنی حکومت کا یہ مؤقف سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں ظاہر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی حکومت کی جانب سے اسانج کو تحفظ فراہم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اس بیان میں انہوں نے کہا: ’’دو برس، یہ بہت ہی طویل عرصہ ہے: اب جولیان اسانج کے مقدمے کو کسی نتیجے پر پہنچ جانا چاہیے اور ان کے انسانی حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے۔‘‘
پٹینو نے مزید کہا: ’’ایکواڈور انصاف کے معاملے میں سویڈن سے تعاون کرنا چاہتا ہے: لندن میں سفارت خانے میں یا ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے تفتیش کی جائے، اب مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
بدھ کو ہی سویڈن کی ایک عدالت نے جولیان اسانج کے خلاف جاری کیے گئے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے سے متعلق ان کے وکلاء کی ایک درخواست مسترد کر دی۔
یہ فیصلہ اسٹاک ہولم ڈسٹرکٹ کورٹ نے سنایا ہے۔ وکلائے استغاثہ نے مطالبہ کیا تھا کہ 2010ء کے اواخر میں جاری کیے گئے گرفتاری کے وارنٹ برقرار رکھے جائیں تاکہ اسانج کو سویڈن لایا جا سکے۔
وکلائے استغاثہ نے اسانج کی یہ تجویز مسترد کر دی کہ ان سے لندن میں پوچھ گچھ کر لی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں متعدد لوگوں سے بارہا پوچھ گچھ کی ضرورت ہو گی اور ان لوگوں میں ممکنہ طور پر اسانج بھی شامل ہوں گے۔
اس کے برعکس وکلائے صفائی کا کہنا تھا کہ تفتیش غیرضروری طول پکڑتی جا رہی ہے۔ انہوں نے بدھ کے نئے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
آسٹریلوی کمپیوٹر ایکسپرٹ اسانج دراصل اپنی ویب سائٹ پر امریکا کے ہزاروں خفیہ سفارتی پیغامات جاری کرتے ہوئے واشنگٹن حکومت کو ناراض کر چکے ہیں۔ وہ سویڈن کو مطلوب ہیں، جہاں وکی لیکس کی دو رضاکار خواتین نے ان پر جنسی طورپر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔
اسانج ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ برطانیہ کی ایک عدالت نے دو برس قبل انہیں سویڈن کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنایا تھا جس کے بعد سے وہ لندن میں قائم ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اس سے قبل 2010ء میں انہیں برطانیہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اسی سال دسمبر میں وہ ضمانت پر رہا ہونے کے بعد اپنے ایک دوست کے ہاں قیام پذیر رہے۔