سنوڈن کا معاملہ، امریکا اور ایکواڈور کے مابین کشیدگی
28 جون 2013وینزویلا کے سابق صدر اوگو شاویز کے انتقال کے بعد ایکواڈور کے صدر رفائیل کوریئا واشنگٹن حکومت کے ایک حریف کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ کوئیٹو حکام امریکی ناراضگی مول لینے کے لیے بالکل تیار نظر آ رہے ہیں۔ کوریئا حکومت نے امریکی دباؤ کو نا منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ واشنگٹن حکومت کو انسانی حقوق کی تربیت دینے کے لیے سالانہ 23 ملین ڈالر دینے پر تیار ہے۔ اس دوران ایکواڈور کے وزیر اطلاعات فیرنانڈو الواراڈو نے کہا کہ امریکا کے ساتھ کیے جانے والے تجارتی معاہدے دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایکواڈور نے امریکا کی جانب سے ٹیکس کی مد میں دی جانے والی مراعات لینے سے انکار کر دیا ہے۔
امریکا ایکواڈور کا ایک اہم تجارتی ساتھی ہے اور اس ملک کی تقریباً نصف برآمدات امریکا کے لیے ہی ہوتی ہیں۔ امریکا ایکواڈور کی حکومت کے ساتھ مل کر منشیات کی اسمگلنگ روکنے کے لیے کاررورائیاں کر رہا ہے اور اس وجہ سے اس ملک کو تجارتی شعبے میں مراعات بھی دی گئی تھیں۔ 2012ء کے دوران ایکواڈور نے امریکا کو تقریباً ساڑھے پانچ ارب ڈالر کا تیل برآمد کیا۔ تاہم ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اس صورتحال میں کوئیٹو حکومت کو اپنے تیل کا کوئی نیا خریدار ڈھونڈنا پڑ سکتا ہے۔ ایکواڈور کی وزارت اطلاعات کے مطابق ،’ہم نہ تو بیرونی دباؤ اور نہ ہی کسی کی دھمکیاں برداشت کریں گے اور اپنے اصولوں پر کسی قسم کا بھی سودا نہیں کریں گے‘۔
ایکواڈور نے اس سے قبل وکی لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد جولیان آسانج کو بھی سیاسی پناہ دی تھی اور آسانج گزشتہ کئی مہینوں سے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں موجود ہیں۔ جولیان آسانج کے بعد اب سنوڈن کے معاملے میں ایکواڈور کے کردار کے دیکھتے ہوئے رفائیل کوریئا کو متعدد ماہرین دوسرا اوگو شاویز قرار دے رہے ہیں۔ اس دوران امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ سنوڈن کی امریکا حوالگی کے سلسلے میں ان کی حکومت غیر معمولی اقدامات نہیں کرے گی۔
ai / at (afp, ap,dpa)