1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب کے وزیر داخلہ کا دورہ پاکستان کیسا رہا؟

8 فروری 2022

سعودی وزیر داخلہ کا پاکستان کا دورہ ایسے وقت ہوا جب وہ ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کے خلاف جنگ میں با اعتماد دفاعی اور سفارتی حلیف کا متلاشی ہے۔ پاکستان کو بھی بالخصوص اقتصادی صورت حال کے مدنظر ایک مخیر دوست کی ضرورت ہے۔

https://p.dw.com/p/46ezH
عمران خان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان(فائل فوٹو)
عمران خان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان(فائل فوٹو)تصویر: Bandar Algaloud/Saudi Kingdom Council/AA/picture alliance

سعودی وزیر داخلہ شہزادہ عبدالعزیز بن سعود بن نائف نے پیر کے روز پاکستان کے ایک روزہ حکومتی دورے کے دوران وزیر اعظم عمران خان، صدر ڈاکٹر عارف علوی، وزیر داخلہ شیخ رشید، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور باہمی دلچسپی کے علاوہ علاقائی، بین الاقوامی، اقتصادی اور دفاعی امور پر تبادلہ خیال کیا۔

شہزادہ عبدالعزیز بن سعود اورعمران خان کے درمیان بات چیت کے بعد جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کو نشانہ بنانے کے لیے ہونے والے حملوں کی مذمت کی اور مملکت کی سلامتی، خود مختاری اور سرحدی تحفظ کے لیے مکمل تعاون کا اعادہ کیا۔

وزیر اعظم ہاوس کی طرف سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ عمران خان نے مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کے لیے بھی سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان پائیدار برادرانہ تعلقات میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے تعاون کو بھی سراہا اور سعودی عرب میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی میزبانی پر سعودی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔

 شہزادہ عبدالعزیز بن سعود بن نائف پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید کی دعوت پر پاکستان آئے تھے۔

سعودی عرب سن 2014 سے ہی یمن کی جنگ میں شامل ہے اور ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کے خلاف اپنی جنگ میں فوجی اور سفارتی حمایت کی تلاش میں ہے۔ بالخصوص امریکا کی طرف سے سعودی عرب سے اپنے پیٹریاٹ میزائل سسٹم کو ہٹا لینے کے بعد سے اس ملک کو دفاعی حمایت کی ضرورت زیادہ بڑھ گئی ہے۔

حالانکہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی میں پاکستان روایتی طور پر غیر جانبدار رہا ہے۔ تاہم بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مبینہ طورپر ایران سے سرگرم بلوچ عسکریت پسندوں کے ذریعہ پاکستان کے فوجی کیمپوں پر ہونے والے حالیہ حملوں کے واقعات کے بعد اسلام آباد کے موقف میں تبدیلی آ سکتی ہے۔

قیدیوں کی منتقلی کا معاہدہ

اپنے سعودی ہم منصب کے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال کے بعد پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے درمیان مجرموں کی منتقلی کے معاہدے کے فریم ورک کے تحت سعودی عرب میں پاکستانی قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کو پاکستان واپس بھیجا جائے گا۔

قیدیوں کی واپسی کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ برس مئی میں وزیر اعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے دوران ایک معاہدہ ہوا تھا اور پچھلے ماہ ریاض نے اس کی توثیق کر دی۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ان تمام پاکستانیوں کو واپس لایا جائے گا جو سعودی عرب کی جیلوں میں چھوٹے کیسز میں قید ہیں اور جن پر جرمانے عائد ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت دیگر برادر مسلم ممالک میں قید پاکستانیوں کی واپسی کے لیے بھی کام کررہی ہے جو چھوٹے کیسز میں جرمانے کی عدم ادائیگی کی وجہ سے قید میں ہیں۔

افغانستان کے حوالے سے مشترکہ فکرمندی

پاکستان اور سعودی عرب نے افغانستان کے حوالے سے بھی مشترکہ فکر مندی کا اظہار کیا۔

سعودی وزیر داخلہ کی صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کے بعد جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں نے افغانستان کے حوالے سے "مشترکہ فکر مندی" کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر علوی نے اس موقع پر مصیبت کی گھڑی میں افغانوں کی ہر ممکن مدد کے لیے عالمی برادری سے اپیل بھی کی۔

 سعودی وزیر داخلہ شہزادہ عبدالعزیز بن سعود نے جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ بھی دفاعی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

 ج ا/ ص ز  (نیوز ایجنسیاں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں