1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا: کل کے دوست، آج کے حریف

کشور مصطفیٰ5 جنوری 2015

سری لنکا میں مجوزہ صدارتی انتخابات کا انعقاد آٹھ جنوری کو ہو گا۔ موجودہ صدر مہندا راجاپاکسے اب تک یہ سمجھ رہے تھے کہ اس بار بھی ان کا مقابلہ کسی سنجیدہ امیدوار سے نہیں ہو گا اور وہ تیسری بار بھی صدر منتخب ہو جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/1EF5M
تصویر: picture-alliance/AP//E. Jayawardena

راجاپاکسے کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ سری لنکا کے ایک معروف سیاسی لیڈر اور رکنِ پارلیمان میتھری پالا سیری سینا نے صدارتی انتخابات میں راجا پاکسے کے مقابلے پر میدان میں اُترنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان حالات میں سری لنکا کا سیاسی منظر نامہ کافی حد تک بدلا ہوا نظر آ رہا ہے۔

گزشتہ سال نومبر میں صدر راجا پاکسے اپنے قابل اعتبار وزیر صحت میتھری پالا سیری سینا کے ساتھ ایک عشائیے میں آئندہ صدارتی انتخابات میں تیسری بار اپنی کامیابی کے بارے میں بہت پُر اعتماد نظر آ رہے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ اس بار کوئی سنجیدہ امیدوار انہیں الیکشن کے میدان میں چیلنج کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ راجا پاکسے کے اِن خیالات پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر صحت میتھری پالا سیری سینا نے اپنی انتخابی مہم کی ایک میٹنگ کے دوران کہا، "صدر پاکسے جس وقت یہ کہہ رہے تھے کہ اس بار کے انتخاب میں انہیں کوئی بھی چیلنج نہیں کرے گا، میں اُن کے برابر بیٹھا تھا"۔

Srilankische Soldaten neben einem Flugabwehrgeschütz der Tamil Tiger
2009 ء میں تامل علیحدگی پسندوں کی بغاوت کو حتمی طور پر کچل دیا گیا تھاتصویر: AP

راجا پاکسے پر الزامات

میتھری پالا سیریسینا کا کہنا ہے کہ انہوں نے راجا پاکسے کے خلاف صدارتی الیکشن لڑنے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ اس کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے میتھری پالا سیری سینا نے کہا، "میں الیکشن میں پاکسے کے مقابلے پر میدان میں اس لیے اترا ہوں کہ میں اب ایک ایسے لیڈر کو مزید برداشت نہیں کر سکتا جس نے ملک، حکومت اور قومی دولت کو لوٹا ہے"۔

سیری سینا نے تامل علیحدگی پسند ٹائیگرز کی بپا کی ہوئی جنگ سے تباہ حال ملک سری لنکا کی کمزور معیشت کو جلد از جلد بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ سری لنکا اپنی اقتصادی زبوں حالی اور سیاسی عدم استحکام کے سبب عالمی برادری میں اپنی ساکھ کھو چُکا ہے۔ 2009ء میں اس ملک میں تامل علیحدگی پسندوں کی اُس مسلح بغاوت کو حتمی طور پر کچل دیا گیا تھا، جس کے سبب لاتعداد انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ ملکی اقتصادیات کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔ دوسری جانب سری لنکا کی قربت چین کے ساتھ بڑھتی گئی جبکہ بحر ہند کے ایک جزیرے پر بسے ہوئے سری لنکا میں پائی جانے والی کرپشن، جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی کی صورتحال کے سبب اس ملک کے مغربی دنیا کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار ہوتے چلے گئے۔

Flüchtlingslager in Sri Lanka PANO
سری لنکا کی خانہ جنگی کے سبب لاتعداد انسان نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھےتصویر: AP

راجا پاکسے کا مخالف یا غدار

مجوزہ صدارتی انتخابات میں بطور امیدوار نامزدگی کا فیصلہ کرنے والے وزیر صحت میتھری پالا سیری سینا کو موجودہ صدر راجا پاکسے نے غدار قرار دیا ہے۔ 63 سالہ لیڈر سیری سینا کے ساتھ ساتھ 225نشستوں پر مشمل موجودہ پارلیمان کے 25 اراکین اور پاکسے کے پرانے وفاداروں نے بھی اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے سیری سینا کا ساتھ دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس طرح کبھی کے غیر معمولی شہرت یافتہ اور عوام میں بے حد مقبول صدر راجا پاکسے پر مطلق العنان حکومت کے سربراہ ہونے اور بدعنوانی سمیت اقربا پروری جیسے الزامات مزید کھُل کر سامنے آ گئے ہیں۔

بدھوں کے رہنما

میتھری پالا سیری سینا اب بھی ملک کی اکثریت یعنی بُدھ مت کے ماننے والے سری لنکا کے سنہالی باشندوں کے نمائندہ ہیں۔ سنہالی بُدھ شہری ملک کی 21 ملین کی آبادی کا 70 فیصد بنتے ہیں۔ 2009ء میں جس وقت تامل ٹائیگرز کے خلاف جنگ اپنے عروج پر تھی، اُس وقت میتھری پالا سیری سینا ملک کے وزیر دفاع تھے۔

میتھری پالا سیری سینا نے ملک سے نسلی فسادات کے خاتمے کے لیے ممکنہ اقدامات کا وعدہ کیا ہے۔ سری لنکا میں اس وقت تامل، مسلم اور مسیحی برادری امتیازی سلوک کا شکار ہے اور اسے معاشرے میں با عزت اور پرامن زندگی گزارنے کے لیے بڑی جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔ سیری سینا نے کہا ہے کہ ملک کا نیا صدر منتخب ہو کر وہ سری لنکا کی اَفواج پر لگے جنگی جرائم جیسے الزامات کو ختم کروانے کی تمام تر کوششیں کریں گے۔