سرحد پر کشیدگی کے خاتمے کے لیے بھارت اور چین میں بات چیت
20 اگست 2020بھارت اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوول کنٹرول(ایل اے سی) پر جاری کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سرحدی امور سے متعلق ایک معاہدے 'دی ورکنگ میکنزم فار کنسلٹیشن اینڈ کوارڈینیشن آن انڈیا چائنا بارڈر افیئرز' (ڈبلیو ایم سی سی) کے تحت جمعرات سے میٹنگ شروع ہو رہی ہے۔ نئی دہلی میں حکام نے اس میٹنگ کی تصدیق کی ہے تاہم اس کے ساتھ میڈیا میں اس طرح کی بھی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ یہ اس نوعیت کی چوتھی میٹنگ ہے اور اس سے بھی بہت زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جا سکتیں۔
گزشتہ مئی میں لائن آف ایکچوؤل کنٹرول کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان شدید اختلافات کی وجہ سے کشیدگی برپا ہوئی تھی جو اب بھی جاری ہے۔ اسی کی وجہ سے مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں جون میں دونوں فوجوں کے درمیان جھڑپ ہوگئی تھیں جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔ اس وقت سے ایل اے سی کے دونوں جانب چین اور بھارت کے ہزاروں فوجی ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں اور حالات کشیدہ بتائے جا رہے ہیں۔
ڈبلیو ایم سی سی کی یہ چوتھی میٹنگ ہے جبکہ کشیدگی کے خاتمے کے سلسلے میں اس سے قبل پانچ بار کور کمانڈر کی میٹنگ ہوچکی ہے۔ اس مقصد سے سرحدی امور سے متعلق دونوں ملکوں کے خصوصی نمائندوں کی ملاقات کے علاوہ دو بار بھارتی سفارتکار بھی چین کی حکمراں جماعت کے اعلی عہدیداران اور فوجی حکام سے ملاقات کر چکے ہیں۔ لیکن سرحد پر کشیدگی میں کمی نہیں آئی ہے۔
بھارت کا موقف ہے کہ ایل اے سی پر اس برس اپریل تک جو پوزیشن تھی اس کو بحال کیا جائے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کی فوجوں کو پہلے کی پوزیشن پر واپس چلے جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں بعض علاقوں میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے اور دونوں جانب کی فوجیں کچھ حد تک پیچھے ہٹی ہیں تاہم بیشتر متنازعہ علاقوں میں صورتحال کشیدہ ہے۔
اس بارے میں سب سے بڑا مسئلہ لداخ کی معروف جھیل پیونگانگ ہے جس میں پہلے بھارت فنگر آٹھ تک گشت کرتا تھا تاہم اب اسے فنگر چار تک ہی رسائی حاصل ہے۔ دوسرا ڈیپسنگ کا علاقہ ہے جہاں دفاعی ماہرین کے مطابق چین پہلے کے مقابلے تقریباً 22 کلومیٹر اندر آگیا ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معاملہ ذرا پیچیدہ ہے اور اسے حل کرنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔
بھارتی فوج کے سابق افسر جنرل اتپل بھٹا چاریہ لداخ میں بھی ایک مدت تک اپنی خدمات انجام دی تھیں اور وہ اس علاقے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ کافی پیچیدہ ہے اور اسے حل کرنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''چینی فوج ہمارے علاقے میں پیٹرولنگ کررہی ہے۔۔۔۔ چین صبر کرنے کی تلقین اس طرح کرتا رہیگا جیسے گراؤنڈ پر کچھ بھی نہیں ہورہا ہے، یہاں تک کہ آپ کا صبر ٹوٹ جائے۔۔۔۔ بھارت کو اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔''
جنرل اتپل کا یہ بھی دعوی ہے کہ لداخ میں بھارتی فوج چین سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت کو دباؤ بنانے کے لیے ایک سطح کے بعد چین سے بات نہیں کرنی چاہیے۔ ''فوجی سطح پر بات چیت تو ٹھیک ہے لیکن جب تک چینی فوج پہلے جیسی صورتحال بحال نہیں کرتی اس وقت تک قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان بات چیت کا کیا مطلب ہے؟ اجیت ڈوبھال کا عہدہ کابینہ کے درجے کا ہے اور اس صورت میں انہیں چین سے بات نہیں کرنی چاہیے۔''
جنرل بھٹاچاریہ تسلیم کرتے ہیں کہ معاشی سطح بھارت کا انحصار چین پر اتنا زیادہ ہے کہ بھارت کی اپنی محبوریاں اور محدود آپشنز ہیں اس لیے بھارت بذات خود چین پر بہت زیادہ اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ ''دلی میں بیٹھ کر یہ کہنا آسان ہے کہ چین سے یہ نہیں لیں گے وہ نہیں کریں گے تاہم اصل حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بھارت میں بننے والی دوائیں اور یا اس طرح کی دیگر تمام اشیاء کا چین پر تقریبا 70 فیصد انحصار ہے۔ تو فوری طور پر چین سے ہر چیز بند بھی نہیں کی جا سکتی۔ یہ صورت حال بڑی احتیاط سے دشوار گزار راستہ طے کرنے کے مترادف ہے۔''
جنرل اتپل بھٹاچاریہ کا کہنا تھا کہ اگر چین نے سرحد پر کچھ ایڈونچر کیا تو پاکستان بھی دراندازی کی کوشش کرے گا اس لیے یہ ''تہہ در تہہ ایسا پیچیدہ مسئلہ ہے کہ جس کے لیے بھارت کو صبر اور استقامت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔''
بھارتی دفاعی ماہرین اور تجزیہ کار کہتے رہے ہیں کہ جس انداز سے چین نے ایل اے سی کے کئی علاقوں میں اپنی فوج کو فی الوقت تعینات کر رکھا ہے اس سے بھارت کے وہ کئی علاقے جس پر اس کا دعوی رہا ہے، چین کے قبضے میں چلے گئے ہیں۔ لیکن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ایک بیان میں اس تاثر کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ بھارت کی ایک انچ زمین بھی کسی کے قبضے میں نہیں ہے۔ تاہم حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے اس بیان کو جھوٹا قرار دیا تھا۔