1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: ’ستاون ہزار تارکین وطن ملک بدر کیے جانا ہیں‘

2 دسمبر 2018

جرمن حکومت نے بتایا ہے کہ جرمنی میں ستاون ہزار سے زائد غیر ملکی ایسے ہیں جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ وفاقی حکومت نے یہ بات لنکے پارٹی کی سیاست دان کے ایک سوال کے جواب میں بتائی ہے۔

https://p.dw.com/p/39ICn
IOM bringt Flüchtlinge aus Libyen in Heimatländer zurück
تصویر: AFP/Getty Images/M. Cattani

جرمنی کی وفاقی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک جرمنی میں دو لاکھ پینتیس ہزار ایسے غیر ملکی مقیم تھے، جنہیں قانونی طور پر جرمنی سے ملک بدر کیا جانا چاہیے۔

بائیں بازو کی سیاسی جماعت لنکے کی سیاست دان اولا یلپکے کے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں برلن حکومت نے بتایا کہ ان 234986 غیر ملکیوں میں سے قریب دو تہائی (ایک لاکھ اٹھہتر ہزار) کو جرمنی میں عارضی قیام کی اجازت یا ملک بدری پر پابندی (جسے ڈُلڈنگ بھی کہا جاتا ہے) عائد کی جا چکی ہے۔

تاہم اس کے باوجود سرکاری ریکارڈ کے مطابق ستاون ہزار ایک سو بارہ غیر ملکی ایسے ہیں جن کے پاس جرمنی میں رہنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے اور اسی لیے انہیں لازمی طور پر ملک بدر کر دیا جانا ہے۔

حکومت کے مطابق جن پونے دو لاکھ افراد کو عارضی قیام کی اجازت دی گئی، ان میں سے اکثریت کا تعلق افغانستان، عراق اور سربیا جیسے ممالک سے ہے۔ ان افراد کی ملک بدری پر عارضی پابندی انسانی بنیادوں یا انتظامی وجوہات کی بنا پر عائد کی گئی ہے۔

اولا یلپکے نے اس حوالے سے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ’’جن افراد کی ملک بدریوں پر عارضی پابندی لگائی گئی ہے ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جنہیں بہتر وجہ سے ملک بدر کیا ہی نہیں جانا چاہیے۔‘‘ یلپکے نے ڈُلڈنگ کے حامل افراد کو ملک بدر نہ کرنے کی حمایت کرتے ہوئے مزید کہا، ’’زیادہ سے زیادہ ملک بدریوں کا مطالبہ کرنے کی بجائے ہمیں ان افراد کے لیے موثر رہائشی حقوق فراہم کرنے پر توجہ دینا چاہیے۔‘‘

ش ح/ ع ب (ڈی پی اے)