سانحہ اے پی ایس کے آٹھ سال: ’زخم جو کبھی مندمل نہ ہو سکے‘
16 دسمبر 2022پاکستان میں ستر کی دہائی کے اوائل سے سولہ دسمبر کو ملکی تاریخ میں ایک تاریک دن کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے کیونکہ 1971ء میں اسی روز یہ جنوب ایشیائی ملک دو لخت ہو گیا تھا۔ پھر ٹھیک 43 سالوں بعد اسی روز یعنی سولہ دسمبر 2014ء میں دہشت گردی کے ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ پوری دنیا کو دہلا کر رکھ دیا۔
آج سے آٹھ سال قبل آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہونے والے ایک دہشت گردانہ حملے میں 132 بچوں سمیت تقریباً 150 بے گناہ لوگ مارے گئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں اب تک دہشت گردی کا سب سے بدترین حملہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ حملے کا نشانہ بننے والے اسکول کے بچوں کی کم عمری بھی تھی۔ اس واقعے نے پوری قوم کوایک ایسے صدمے سے دوچار کیا جو آج بھی ان کی یادوں میں تازہ ہے۔
آٹھ سال بعد کہاں کھڑے ہیں؟
تاہم اس حملے کے آٹھ سال بعد حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں دہشت گرد گروہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سرکاری اہلکاروں خصوصاﹰ پولیس پر حملوں سے ملک بھر میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ بہت سے ذہنوں میں یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ آٹھ سال بعد امن و امان کی صورتحال میں کیا بہتری آئی ہے؟
سانحہ اے پی ایس میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین اور لواحقین کی تنظیم 'شہدا اے پی ایس فورم‘ کے صدر اجون خان کا کہنا ہے کہ آج اٹھ سال بعد انہیں صرف ایک تبدیلی نظر آتی ہے اور وہ بقول ان کے دہشت گردی کے خلاف عوامی شعور کی بیداری ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''جب ہمارےبچوں کی قربانی لی گئی تو اس سے ایک فرق پڑا۔ اب لوگ دہشت گردوں کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے حکومتی اداروں اور سکیورٹی ایجنسیوں کا انتظار نہیں کرتے بلکہ وہ اب خود ہی اس عفریت کے خلاف سڑکوں پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ آپ مالاکنڈ اور سوات کی حالیہ مثالیں دیکھ سکتے ہیں، جہاں لوگ دہشت گردوں کے خلاف اپنی مدد آپ کے تحت اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔‘‘
کبھی نہ مندمل ہونے والے زخم
اجون خان کے صاحبزادے اسفند خان اے پی ایس میں دسویں جماعت کے طالبعلم تھے۔ وہ اُن 132 بچوں میں شامل تھے جو سولہ دسمبر کو دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔
اجون خان کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا اسفند زندگی سے بھرپور تھا۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے انہوں نے کہا ، ''زندگی نے اسے مہلت نہ دی اور یوں وہ مجھ سے بہت جلد جدا ہو گیا۔ لیکن باقی بچوں کے ماں باپ کا غم دیکھتا ہوں تو کوشش کرتا ہوں کہ جتنا ممکن ہو ان کو سہارا دوں۔ لیکن یہ تو سب کو پتہ ہے کہ ہماری زندگیاں کبھی بھی پہلے جیسی نہیں ہو سکتیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ دسمبر کے صرف اسی ایک دن ہی نہیں بلکہ پورے سال کے ہر دن اپنے بچے یاد رہتے ہیں، ''کوئی اولاد کو بھی بھلا سکتا ہے۔ اولاد کی بے وقت جدائی کا زخم تو کبھی مندمل نہیں ہو سکتا۔‘‘
نیشنل ایکشن پلان
آرمی پبلک اسکول پر حملے کے فوری بعد اس وقت مرکز میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ایک کثیر الجماعتی کانفرنس بلائی تھی تاکہ دہشت گردی کے خلاف آئندہ کے لائحہ عمل پر اتفاق رائے ہو سکے۔ اس بحث سے کے نتیجے میں ایک بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا- اس کا مقصد انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور واقعے سے چند ماہ قبل ہی شمالی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے مضبوط ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے شروع کیے گئے فوجی آپریشن کی تکمیل تھا۔
پشاور میں مقیم اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی حق نواز خان کا کہنا ہے طالبان کی صوبے میں بڑھتی ہوئی کارروائیوں نے یہاں کے لوگوں کو ایک بار پھر خوف و ہراس کا شکار کر دیا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''سانحہ اے پی ایس کے بعد دہشت گردی کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے ایک نیشنل ایکشن پلان (نیپ) بنایا گیا تھا لیکن بد قسمتی سے اس پر مکمل عمل درآمد نہیں کیا گیا اور آج صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ آرمی اسکول پر حملے کے ذمہ دار اب دوبارہ خطرہ بن کر ابھر رہے ہیں۔ اگر ان کا اس وقت مؤثر خاتمہ ہو جاتا تو یہ صورتحال نہ دیکھنا پڑتی۔‘‘
حق نواز خان نے کہا، ''شروع میں نیپ کے تحت خفیہ اطلاعات کی بنیادوں پر دہشت گردوں کے خلاف کچھ آپریشن کیے گئے، لیکن اس میں دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے جو بنیادی اقدامات تھے، ان کو نظر انداز کر دیا گیا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ نیپ میں دہشت گردی کے مقدمات سے نمٹنے کے لیے فوجداری قوانین میں ترامیم کی بھی سفارش کی گئی تھی لیکن اس بارے میں بھی خاطر خواہ قانون سازی نہیں کی گئی۔
حق نواز کے بقول ریاست نے دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کرنے اور سزائے موت پر سے پابندی اٹھانے جیسے اقدامات پر زیادہ زور دیا۔ ان کے بقول اس نوعیت کے اقدامات سے وقتی فرق تو پڑ سکتا ہے لیکن دہشت گردی کی بیخ کنی نہیں کی جاسکتی۔
طالبان سے بات چیت
حال ہی میں پاکستانی حکام کی طرف سے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر بھی بہت سے حلقوں کی جانب سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان مبینہ طور پر افغان طالبان سے بھی مدد لے رہا ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی سے ریاستی مذاکرات کا پہلے بھی کبھی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا اور اب بھی اس کی توقع کم ہے۔
ان تجزیہ کاروں کے مطابق ماضی میں اس طرح کے مذاکرات کا فائدہ صرف ٹی ٹی پی کوپہنچا ہے۔ پاکستان کے ایک انگریزی روزنامے ڈان نے بھی آج سولہ دسمبر کو اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ سوات اور قبائلی اضلاع میں بڑے پیمانے پر انتہا پسندی کے خلاف عوامی ریلیوں کے باوجود ریاست کی طرف سے عسکریت پسندی کے احیاء کو تسلیم کرنے سے انکار کو سمجھنا مشکل ہے۔
اداریے میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ کیا آج ملکی سیاسی قیادت سے اس قسم کی پختگی کی توقع کی جاسکتی ہے آیا وہ اس قابل ہیں کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک بار پھر مل بیٹھیں؟
ش ر⁄ ش ح