سابق جرمن چانسلر ہیلمٹ شمٹ 90 برس کے ہوگئے: شخصیت اور سیاست
26 دسمبر 2008قریب آٹھ سال تک وفاقی چانسلر کے عہدے پر فائز رہنے والے ہیلمٹ شمٹ نے ایک ایسے دور میں سربراہ حکومت کے فرائض انجام دیئے جب منقسم جرمنی کے مغربی حصے پر مشتمل وفاقی جمہوریہ جرمنی کو کئی طرح کے سیاسی اور معیشی چیلنجوں کا سامنا رہا۔ سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی SPD سے تعلق رکھنے والے اس سیاستدان نے اپنے طویل سیاسی کیرئیر میں بہت سے صوبائی اور وفاقی عہدوں پر خدمات انجام دیں۔
"یہ حکومتی اتحاد تسلسل اور سوشل لبرل سیاست کی بنیاد پر قائم رہے گا۔" یہ وہ الفاظ ہیں جو ہیلمٹ شمٹ نے اپنے سیاسی کیرئیر کے نقطہ عروج پر17 مئی 1974 کے روز اس وقت کہے تھے جب انہیں وفاقی جمہوریہ جرمنی کا پانچواں چانسلر منتخب کیا گیا تھا۔ اس دن سے پہلےکسی کو بھی ان کے سربراہ حکومت کے عہدے پر انتخاب کی توقع نہیں تھی کیونکہ ہیلمٹ شمٹ اپنے ہی ایک پارٹی ساتھی ولی برانٹ کے جانشین کے طور پر چانسلر بنے تھے جنہیں ایک سکینڈل کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑگیا تھا۔
نازی دور کے ناقابل فراموش تجربات
1918 میں 23 دسمبر کے روز ہیمبرگ میں پیدا ہونے والے ہیلمٹ شمٹ نے 1937 میں اس دور کی جرمن ریاست میں سرکاری ملازمت شروع کی تھی اور بعد ازاں انہیں نازی جرمن فوج میں شامل کرلیا گیا۔ جنگ کتنی قابل نفرت چیز ہے، اس کا اندازہ ہیلمٹ شمٹ کو دوسری عالمی جنگ کے دوران مشرقی محاذ پر ہوا اور وہیں انہیں وہ جنگی تجربات بھی ہوئے جنہیں وہ سب سے زیادہ ناقابل فراموش قرار دیتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد شمالی جرمنی کی شہری ریاست ہیمبرگ میں وہ وزیر داخلہ بنے تو فروری 1962 میں آنے والے شدید سمندری طوفان اور پھر سیلابوں کے دوران انہوں نے اس شہر کے عوام کو بروقت بچانے کی وہ کوششیں کیں جن کے باعث ان کی شہرت پورے ملک میں پھیل گئی۔
عملیت پسند سیاستدان
وفاقی چانسلر کُرٹ گیورگ کیزِنگر کے دور میں وہ وفاقی پارلیمان میں اپنی جماعت SPD کے پارلیمانی حزب کے سربراہ بنے اور 1969 میں جرمنی میں قائم ہونے والی پہلی سوشل لبرل مخلوط حکومت میں انہیں وزارت دفاع کا قلمدان سونپ دیا گیا۔ 1972 میں ہونے والے انتخابات کے بعد بون میں جووفاقی حکومت بنی، اس میں ہیلمٹ شمٹ وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز ہوئے اور 1974 میں اپنی عملیت پسندی کی وجہ سے شہرت اختیار کرجانے والے اس رہنما کو وفاقی جرمنی کا پانچواں چانسلر منتخب کرلیا گیا۔
1974 سے لے کر 1982 تک ہیلمٹ شمٹ کے دور اقتدار ہی میں عالمی سطح پر پہلی مرتبہ معیشی کساد بازاری دیکھنےمیں آئی جس کے نتیجےمیں تیل کابحران پیدا ہوا اور جرمنی میں بے روزگاری میں بہت زیادہ اضافہ بھی ہوا۔ تب شمٹ حکومت نےمعیشی ترقی کےکئی پروگرام متعارف کرائے اور پہلی بار یہ تصور بھی پیش کیا کہ عالمی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والے بڑے ملکوں کے سربراہان کے مشاورتی اجلاس باقاعدگی سے ہونا چاہیئں۔ یہ ہیلمٹ شمٹ کی اسی تجویزکا نتیجہ ہے کہ 1975 سے ایسی عالمی معیشی سربراہی کانفرنسیں باقاعدگی سے منعقد ہوتی ہیں۔
ہیلمٹ شمٹ کو اپنے دور اقتدار میں جن دیگر بڑے مسائل کا سامنا رہا، ان میں بائیں بازو کے ریڈ آرمی گروپ کے دہشت گردوں کی وہ کارروائیاں بھی شامل ہیں جو اس دور کی جرمن ریاست کے لئے زیادہ سے زیادہ خطرات کا سبب بنتی جارہی تھیں۔ ہیلمٹ شمٹ نے بائیں بازو کی RAF نامی تنظیم کی طرف سے مسلح حملوں اور قتل کے واقعات کے روک تھام کے لئے اپنی توانائی کا پورا استعمال کیا اور اسی د وران ان کی شخصیت کا انسانی اور جذباتی پہلو بھی کھل کر سامنے آیا۔
ریڈ آرمی گروپ کی دہشت گردی
1977 میں جرمن خزاں کہلانے والے عرصے میں RAF کے دہشت گردوں نے جرمن آجرین کی ملکی تنظیم کے صدر ہانس مارٹں شلائیر کو اغواء کیا تو قدامت پسندوں کی جماعت CDU نے یہ مطالبے کرنا شروع کردیئے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ عرصے تک چند خاص جمہوری اصول اور قوانین معطل کردیئے جائیں۔
لیکن حقیقی معنوں میں ایک جمہوری سیاستدان کے طور پر ہیلمٹ شمٹ نے ان مطالبات کا جو جواب دیا اس نے ثابت کردیا کہ چانسلر شمٹ نازی سوشلسٹ دورکی خوفناک مثالوں میں سے کچھ بھی بھولے نہیں تھے۔
سلامتی یا آزادی
تب جرمن پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے ہیلمٹ شمٹ نے کہا تھا: "امتحان کی اس گھڑی میں فیصلہ کن بات یہ ہو گی کہ ہم سلامتی کے نام پر اپنی آزادی کو قربان نہ ہونے دیں۔ ہم خود کو عدم برداشت کی اس لہر کے خلاف دیوار بنا دیں گے جو چند عناصر اس ملک میں پھیلانا چاہتے ہیں۔"
ہیلمٹ شمٹ اوران کے ذریعے جرمن ریاست کواپنے اس مؤقف کی بہت بڑی قیمت چکانا پڑی اور وہ یہ کہ ہانس مارٹن شلائیرکو، جو کہ ہیلمٹ شمٹ کے دوست بھی تھے، ان کے اِغواء کاروں نے قتل کردیا۔ اکتوبر1977 میں جب چار فلسطینی ہائی جیکروں نے جرمن فضائی کمپنی لفتھانسا کے ایک مسافر طیارے کو ہسپانوی تعطیلاتی جزیرے مایورکا سے فرینکفرٹ کی طرف پرواز کے دوران اغواء کرلیا اورپھر اسےدوبئی کےراستے صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو لےگئے، تویہ واقعہ بھی شمٹ حکومت کے لئےایک مشکل امتحان ثابت ہوا۔
پھر پانچ روز تک جاری رہنے والی بحرانی صورت حال کے نقطہ عروج پر بون میں ہیلمٹ شمٹ کی سربراہی میں قائم ایک اعلیٰ اختیاراتی ہنگامی کمیٹی کے حکم پر جرمن فوجی کمانڈوز نےکارروائی کرکے اس طیارے پرہائی جیکروں کے قبضے کوختم کیا اور تمام یرغمالی بحفاظت رہا کرا لئے گئے۔ یہ اور ایسے ہی کئی دیگر فیصلےبڑی بہادری سے کی جانے والی اس اصول پسندانہ سیاست کا ثبوت ہیں جو ہیلمٹ شمٹ کے کیرئیر کا خاصا رہی۔
نیٹو میزائیلوں کی تنصیب
80 کی دہائی کے شروع میں جب مغربی دفاعی تنظیم نیٹو کے ایک دوہرے فیصلے پر جرمنی میں بحث شروع ہوئی اور نتیجہ اس دور کی مغربی جرمن ریاست میں نیٹو کے نئے میزائیلوں کی تنصیب کی صورت میں نکلا تویہ واضح ہو گیا کہ ہیلمٹ شمٹ کو حاصل ان کی اپنی جماعت کی طرف سے تائید وحمائت میں کمی آ چکی تھی۔
اسی دور میں ہیلمٹ شمٹ کی قیادت میں قائم سوشل لبرل مخلوط حکومت میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی شروع ہو چکا تھا جس کے پیش نظر چانسلرشمٹ قبل از وقت عام انتخابات کروانا چاہتے تھے مگراس سے پہلے ہی پارلیمان میں اپوزیشن کی قدامت پسند جماعتوں CDU اور CSU نے ترقی پسندوں کی لبرل جماعت FDP کے ساتھ مل کر، جوکہ خود بھی شمٹ حکومت میں شامل تھی، ہیلمٹ شمٹ کے خلاف پارلیمانی عدم اعتماد کی تحریک اکثریتی رائے سے منظور کروا لی۔ یوں جرمنی کے مقبول ترین سیاستدانوں میں شمار ہونے والے شمٹ کو بون کی پارلیمان میں سیاسی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
جمہوریت میں حکومتی تبدیلی
اپنے خلاف عدم اعتماد کے بعد ہیلمٹ شمٹ نے وفاقی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا اس میں کوئی شکایت نہیں تھی بلکہ ان کے الفاظ میں ایک بڑے سیاستدان کی دانشمندی بہت نمایاں تھی۔
"حکومتوں کی تبدیلی اس عمل کا حصہ ہے جو جمہوریت کو قابل اعتماد بناتا ہے۔ اس لئے مجھے یہ شکایت نہیں ہے کہ سوشل لبرل جماعتوں پر مشتمل وفاقی حکومت کو اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ تاہم مجھے یہ شکایت ضرور ہے کہ جس طرح اس حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کیا گیا اس عمل کا قابل اعتماد ہونا مشکوک ہے۔"
1982 میں چانسلر کے طور پر اپنے استعفے کے بعد سے آج تک ہیلمٹ شمٹ جرمنی میں عوامی زندگی کے ہر فیصلہ کن لمحے میں دیکھنے میں آتے ہیں۔ وہ معروف ہفتہ روزہ جریدے Die Zeit کےپبلشر بھی ہیں اور جرمن اور یورپی سیاست پر ان کے تبصروں کو بڑے احترام سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔