سابق جرمن چانسلر شروئڈرکا دورہِ ایران
22 فروری 2009ملاقات سے قبل سابق جرمن چانسلر نے ایرانی صدر کو ان کے اسرائیل سے متعلق خیالات اور ہولوکاسٹ پر ان کی رائے کے حوالے سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ بقول سابق جرمن چانسلر ہولوکاسٹ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات بند کمرے میں ہوئی۔ ملاقات کے بعد سامنے آنے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہِ خیال کیا۔
دریں اثناء جرمن دارلحکومت برلن میں یہودیوں کی مرکزی کاؤنسل نے شروئڈر کی احمدی نژاد سے ملاقات پر سخت تنقید کی ہے۔ کاؤنسل کا موقف ہے کے چوں کہ احمدی نژاد ہولوکاسٹ کی نفی کرتے رہے ہیں اس لیے سابق جرمن چانسلر کو ان سے ملاقات نہیں کرنا چاہیے تھی۔
شروئڈر نے تہران میں ایرانی حکّام سے ملاقات کے بعد کہا کہ ایران مغرب کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا خواہاں ضرور ہے تاہم اس حوالے سے اس نوعیت کی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔
سابق جرمن چانسلر کی ایرانی صدر پر تنقید کے بعد ان کے اور ایرانی صدر کے درمیان ملاقات سے قبل اس کے منسوخ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا تاہم عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ملاقات تناؤ کے ماحول میں ہوئی۔ اس کے برخلاف شروئڈر کی ایران کے سابق صدر محمّد خاتمی سے ملاقات خاصے خوش گوار ماحول میں ہوئی۔ خاتمی جون کے مہینے میں ایران میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں احمدی نژاد کے خلاف لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خاتمی نے سابق جرمن چانسلر سے جرمن ذبان میں گفتگہ کی جو انہوں نے انیس سو اناسی کے اسلامی انقلاب سے قبل جرمن شہر ہیمبرگ میں اپنے قیام کے دوران سیکھی تھی۔
محمّد خاتمی نے شروئڈر سے ملقات کے بعد کہا کہ ہم پرانے اور اچھّے دوست ہیں اور جب ہم اپنے ملکوں کے صدور تھے تو جرمنی اور ایران کے درمیان تعلقات بہتریں سطح پر تھے۔
سابق جرمن چانسلر گیرہارڈ شروئڈر نے ایرانی پارلیمان کے صدر علی لاریجانی اور وزیرِ خارجہ منوچہر متقّی سے بھی ملاقات کی۔
واضح رہے کہ امریکہ میں باراک اوباما کے صدر بننے کے بعد مغربی ممالک اور ایران کے درمیان سفارت کاری کا بند دروازہ قدرے کھلتا دکھائی دے رہا ہے۔ حال ہی میں اقوامِ متحدہ کے جوہری توانائی سے متعلق ادارے نے ایرانی حکومت پر جوہری پروگرام کے حوالے سے غلط اور ادھوری معلومات فراہم کرنے پر تنقید کی تھی۔ تاہم ایرانی صدر احمدی نژاد امریکہ کے ساتھ بات جیت کا دروازہ کھلا رکھنے کو تیّار ہیں۔
برلن میں ایرانی سفیر علی رضا شیخ عطّار نے کہا ہے کہ ایران اور جرمنی کے درمیان تعلقات ہولوکاسٹ پر تنازعے سے زیادہ اہم ہیں۔