سابق بنگلہ دیشی فوجی آمر حسین محمد ارشاد انتقال کر گئے
14 جولائی 2019بنگلہ دیش کی موجودہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے لیڈر اور سابق ڈکٹیٹر حسین محمد ارشاد کی رحلت اتوار چودہ جولائی کو ہوئی۔ ان کے ایک مشیر کا کہنا ہے کہ حسین محمد ارشاد گزشتہ تین ہفتوں سے شدید علیل تھے۔ انہیں زندگی بچانے والے آلات پر انتہائی نگہداشت میں دارالحکومت ڈھاکا کے فوجی ہسپتال میں رکھا گیا تھا۔
سابق فوجی حکمران کو جگر اور گردوں کے عوارض کی پیچیدگیوں کا سامنا تھا۔ ان عوارض کی شدت کی وجہ سے انہیں ستائیس جون کو ڈھاکا کے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔
حسین محمد ارشاد نے ملکی فوج کے سربراہ کے طور پر چوبیس اپریل سن 1982 کو اُس وقت کے صدر احسن الدین چوہدری کی حکومت کا تختہ الٹ کر حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔ انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ملکی دستور کو بھی معطل کر دیا تھا۔ وہ سن 1983 تک اپنے ملک کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی رہے تھے۔
حسین محمد ارشاد کا دور صدارت اسلامی اقدار کو فروغ دینے سے منسلک خیال کیا جاتا ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ کار ان کے دور صدارت کا موزانہ پاکستانی فوجی ڈکٹیٹر ضیا الحق سے بھی کرتے ہیں۔ ارشاد کے دور میں ریاست کا مذہب اسلام قرار دیا گیا تھا۔ اس سے قبل بنگلہ دیش ایک سیکولر مسلمان ملک تھا۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے دوران ایک صوفی پیر کی قربت میں بھی خاصا وقت گزارا تھا۔
حسین محمد ارشاد سن 1990 تک برسراقتدار رہے تھے۔ اس دوران سن 1986 میں انہوں نے متنازعہ صدارتی انتخابات میں کامیابی بھی حاصل کی تھی۔ انہیں شدید عوامی تحریک کا سامنا رہا تھا اور اس کے باعث وہ حکومت سے علیحدگی پر راضی ہوئے تھے۔ اس عوامی تحریک کی قیادت شیخ حسینہ اور خالدہ ضیا کر رہی تھیں۔
ارشاد کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد بنگلہ دیش کی سیاست دو خواتین کے گرد گھومتی رہی۔ ان میں ایک موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ اور دوسری مقید رہنما خالدہ ضیا ہیں۔ خالدہ ضیا مقتول صدر ضیا الرحمان کی بیوہ ہیں۔ ضیا الرحمان تیس مئی سن 1981 کو فوجی افسروں کی بغاوت کے دوران چٹاگانگ میں میں قتل کر دیے گئے تھے۔
ع ح، ا ا، نیوز ایجنسیاں