1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سائبر سکیورٹی پر بون میں کانفرنس

6 ستمبر 2012

آجکل بڑے شہروں میں بجلی، پانی اور ٹریفک کے سارے نظام کمپیوٹر سے جڑے ہوتے ہیں اور ان نظاموں کی خرابی انسانوں اور معیشت کے لیے تباہ کن اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ 4 تا 6 ستمبر بون منعقدہ کانفرنس میں اسی موضوع پر بحث کی گئی۔

https://p.dw.com/p/164Nt
تصویر: Fotolia/Yong Hian Lim

سائبر اسپیس میں ہر طرف خطرات منڈلاتے رہتے ہیں۔ کمپیوٹر استعمال کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ مختلف طرح کے وائرس کمپیوٹرز کو مفلوج کر سکتے ہیں اور صارف کی ذاتی معلومات چوری کر سکتے ہیں۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خطرات اتنے پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں کہ اُن کا نظر میں آ جانا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

جرمن شہر واخٹ بیرگ میں قائم فراؤن ہوفر انسٹیٹوٹ سے وابستہ بیرنہارڈ کلیس کہتے ہیں:’’کسی کمپیوٹر کے سی پی یو پر ایک کمپیوٹر پروگرام انسٹال کر دیا جاتا ہے، جو آگے ایسے کئی دیگر کمپیوٹروں تک بھی پہنچ جاتا ہے، جو زیادہ محفوظ نہیں ہوتے۔ مرکزی کمپیوٹر ان دیگر کمپیوٹرز کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس طرح کمپیوٹرز کا ایک پورا جال جرائم پیشہ شخص کی دسترس میں آ جاتا ہے، جو اُس شخص کے احکامات کی تعمیل کر سکتا ہے اور مثلاً دیگر کمپیوٹروں پر حملے کر سکتا ہے۔‘‘

سائبر اسپیس میں خطرات بڑھ گئے ہیں
سائبر اسپیس میں خطرات بڑھ گئے ہیںتصویر: Fotolia/Kobes

یہ جال چھوٹے بھی ہوتے ہیں اور بڑے بھی اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں لاکھوں کمپیوٹرز کو متاثر کر سکتے ہیں۔ بیرنہارڈ کلیس بتاتے ہیں کہ آج کل انٹرنیٹ سے جڑے جرائم میں آمدنی کا تناسب منشیات کے کاروبار سے بھی زیادہ ہے اور جرائم پیشہ افراد بڑی اور چھوٹی کمپنیوں کے کمپیوٹر سسٹمز کے ساتھ عام لوگوں کے آلات کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ یہ جرائم پیشہ افراد کمپیوٹر نظاموں کو تباہ کرنے کی دھمکی دے کر کمپنیوں کو بلیک میل کر سکتے ہیں یا پھر اُن کی مصنوعات سے متعلق معلومات چوری کر کے آگے بیچ سکتے ہیں۔

اس طرح کے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی میں مشکلات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ لوگ جن سرورز کو استعمال کرتے ہیں، وہ اکثر ایسے ملکوں میں پڑے ہوتے ہیں، جہاں اس طرح کے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ زیادہ تر کیسوں میں تو سرور کا پتہ ہی نہیں چلتا یا یہ انکشاف ہوتا ہے کہ چوری چھپے کسی ایسے شخص کا سی پی یو استعمال کیا جا رہا تھا، جسے کانوں کان اس کی خبر تک نہیں تھی۔

جرائم پیشہ افراد منشیات کے مقابلے میں بھی اب انٹرنیٹ جرائم کے ذریعے زیادہ پیسہ کما رہے ہیں
جرائم پیشہ افراد منشیات کے مقابلے میں بھی اب انٹرنیٹ جرائم کے ذریعے زیادہ پیسہ کما رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

سائبر حملوں سے وہ کمپیوٹر نظام بھی محفوظ نہیں ہیں، جنہیں محفوظ ترین خیال کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال کمپیوٹر ورم Stuxnet ہے، جس نے دو سال پہلے ناتھان کے ایرانی ایٹمی مرکز کے سینٹری فیوجز پر حملہ کر کے اُن میں سے متعدد کو تباہ کر دیا تھا۔ سکیورٹی پالیسیوں سے متعلق وفاقی جرمن اکیڈمی سے وابستہ رومان گرونے والڈ بتاتے ہیں:’’ Stuxnet کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ خاص طور پر محفوظ شعبوں تک بھی پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اُس نے ایسی رکاوٹیں عبور کر لی تھیں، جنہیں عام طور پر ناقابل عبور خیال کیا جاتا تھا۔ Stuxnet کنٹرولر تک یعنی اُن چھوٹے چھوٹے Chips تک بھی پہنچ گیا تھا، جو عام دستی گھڑی سے لے کر صنعتی روبوٹس تک کئی آلات میں استعمال کیے جاتےہیں۔‘‘

گرونے والڈ نے بے پناہ احتیاط کا مشورہ دیتے ہوئے بتایا کہ ضروری نہیں کہ ضرر رساں سافٹ ویئر انٹرنیٹ کے ذریعے ہی کمپیوٹر کے اندر پہنچے۔ بعض اوقات کسی کمپیوٹر یا ڈیجیٹل آلے کی تیاری کے عمل کے دوران ہی اُس کے چِپ میں یہ سافٹ ویئر موجود ہو سکتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ زیادہ تر لوگ اُتنے محتاط نہیں ہیں، جتنا کہ آج کل کے ڈیجیٹل دور میں اُنہیں ہونا چاہیے۔

F. Schmidt/aa/km