ریکوڈک پراجیکٹ پر سب سے بڑا سوال شفافیت کا ہونا ہے!
31 دسمبر 2024کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ مالی بحران سے دوچار حکومت پاکستان نے بلوچستان کے ریکوڈک گولڈ منصوبے کے شیئرز کم قیمت پر فروخت کیے ہیں۔ ان کے مطابق اس منصوبے کے حقیقی فوائد حکومت کو اسی وقت مل سکتے ہیں، جب اس منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی کے ساتھ معاہدہ شفاف ہو اور اس پر چیک اینڈ بیلنس برقرار رکھا جا سکے۔
حکومت بارہا یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ ریکوڈک گولڈ منصوبہ پاکستان اور بلوچستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر ایک ایسا مؤثر نظام قائم نہ کیا گیا، جو اس منصوبے سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی کو شفاف انداز میں ظاہر کرے تو جو کچھ حکومت کو مل رہا ہے وہ صرف ایک وقتی فائدہ ہو گا جبکہ عوام تک طویل المدتی فوائد نہیں پہنچ پائیں گے۔
معروف ماہرِ اقتصادیات قیصر بنگالی نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں صرف امید ہی کر سکتا ہوں کہ یہ منصوبہ سینڈک جیسی قسمت کا شکار نہ ہو کیونکہ وہ منصوبہ آج تک بلوچستان کو ایک روپیہ نہیں دے سکا اور اس کی وجہ شفافیت کا نہ ہونا ہے۔‘‘
مقامی میڈیا کے مطابق حکومتِ پاکستان نے سعودی عرب کو 540 ملین ڈالر میں ریکوڈک منصوبے کے پندرہ فیصد شیئرز فروخت کی منظوری ایک بین الحکومتی معاہدے کے تحت دی ہے۔
وفاقی حکومت کے پاس اس منصوبے کا کل 25 فیصد حصہ تھا جبکہ 25 فیصد حصہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کا ہے۔ باقی پچاس فیصد شیئرز اس منصوبے کی آپریٹنگ کمپنی بیرک گولڈ کی ملکیت ہے۔
وفاقی کابینہ کی طرف سے اپنے پندرہ فیصد شیئرز کی فروخت کی ڈیل کے تحت سعودی عرب دو قسطوں میں رقوم ادا کرے گا۔ پہلے مرحلے میں سعودی عرب 10 فیصد حصص خریدے گا، جس کے لیے پاکستان کو 330 ملین ڈالرز منتقل کیے جائیں گے جبکہ دوسرے مرحلے میں بقیہ 5 فیصد شیئرز 210 ملین ڈالرز میں خریدے جائیں گے۔
یہ ایک بڑا اہم منصوبہ ہے
ریکوڈک منصوبہ دنیا کے سب سے بڑے غیر ترقی یافتہ کاپر اور گولڈ مائنز پراجیکٹس میں شمار کیا جاتا ہے۔ بیرک گولڈ اور اینٹوفاگاسٹا منرلز کی مشترکہ کمپنی، ٹیتھیان کاپر کمپنی نے ان ذخائر کو دریافت کیا تھا۔
سن 2011 میں پاکستان نے اس کمپنی کو لیز پر مائئنگ دینے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد اس کمپنی کی طرف سے عالمی عدالت سے رجوع کر لیا گیا تھا۔ کیس ہارنے کے نتیجے میں پاکستان کو چھ ارب ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔
تاہم اس جرمانے سے بچنے کے لیے پاکستان نے اس کمپنی کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کیے اور اسے پچاس فیصد شیئرز دیتے ہوئے ایک تصفیہ کر لیا تھا۔ اس منصوبے کے باقی نصف حصص وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین تقسیم کر دیے گئے تھے۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان اگرچہ تب ٹیتھیان کو چھ بلین ڈالرز کا ہرجانہ ادا کرنے سے بچ گئی تھی لیکن اس منصوبے کی مالیت اس جرمانے سے کہیں زیادہ تھی۔ لہٰذا سعودی عرب کو فروخت کیے گئے 15 فیصد حصص کی قیمت مناسب معلوم نہیں ہوتی۔
دوسری جانب وہ اس بات سے پرامید بھی ہیں کہ یہ معاہدہ خطے میں مزید سرمایہ کاری کو راغب کر سکتا ہے۔ قیصر بنگالی کے بقول، ''یہ ایک بڑے پیمانے کا منصوبہ ہے۔ اس کے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ دیگر کمپنیاں بھی دلچسپی ظاہر کر رہی ہیں اور یہ ایک اچھا اشارہ ہے لیکن ملک کو احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔‘‘
شفافیت کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے؟
ماہرین اس منصوبے کی شفافیت پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ متعدد ماہرین کو یہ یقین بھی ہے کہ اس منصوبے میں دیگر ممالک کی سرمایا کاری خطے میں مزید بین الاقوامی سرمایا کاری کو فروغ دے گی اور اس سے علاقائی استحکام پیدا ہو گا۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سابق چیئرمین اور معروف ماہر اقتصادیات شبّر زیدی اس بات سے متفق ہیں کہ وفاقی حکومت کے 15 فیصد شیئرز کی قیمت اس منصوبے کے حجم کے مطابق جائز معلوم نہیں ہوتی۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ اس ڈیل کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔
زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایک اور ریاست کا اس منصوبے میں شراکت دار بننا ظاہر کرتا ہے کہ اس منصوبے کی اہمیت ہے اور یوں مزید مائننگ کمپنیاں خطے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کر سکتی ہیں۔ یہ ڈیل بلوچستان میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے اور علاقائی استحکام کے لیے راہ ہموار کرے گی۔‘‘
شبر زیدی نے یہ بھی کہا کہ سعودی حکومت، جو منصوبے میں خاموش شراکت دار کے طور پر شامل ہوئی ہے، شفافیت میں بھی دلچسپی لے گی۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ زیادہ تر شفافیت منصوبے کے اس ڈیٹا پر مبنی ہو گی، جو کمپنی فراہم کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے کہ پاکستان کو اس منصوبے سے مختصر مدت میں مالی فائدہ حاصل نہیں ہو گا، سوائے ان ملازمت کے مواقع کے جو یہ منصوبہ فراہم کرے گا۔منصوبے کے آغاز سے کم از کم 8,000 ملازمتیں پیدا ہونے کی توقع ہے۔
قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان کو ٹیتھیان کمپنی کو قائل کرنا چاہیے کہ وہ کانوں سے حاصل ہونے والے مواد کو پراسیس کرنے کے لیے ابتدائی یونٹس پاکستان میں ہی نصب کرے۔ مزید برآں انہوں نے کہا، ''پاکستان کو اس منصوبے کے مقام سے گوادر بندرگاہ تک ریلوے لائن بچھانا چاہیے تاکہ بندرگاہ کو مزید مؤثر اور فعال بنایا جا سکے اور مجموعی طور پر خطے کو معاشی وسائل تک رسائی فراہم کی جا سکے۔‘‘