روما شہریوں کی بے دخلی: فرانس کی برہمی
17 ستمبر 2010فرانس سے روما شہریوں کی بے دخلی نکولا سارکوزی اور ان کے یورپی حلیفوں کے مابین ایک تنازعہ بنی ہوئی ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے روما(خانہ بدوشوں) کے کیمپوں کے حوالے سے صدر سارکوزی کے بیان سے اختلاف کیا ہے، جس کے بعد پیرس اور برلن حکومتوں کے درمیان بھی یہ معاملہ کشیدگی کا باعث بنا ہے۔
برسلز کے اجلاس کے موقع پر صدر سارکوزی نے ایک نیوزکانفرنس سے خطاب میں چانسلر میرکل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے روما شہریوں کو بے دخل کرنے کے لئے فرانسیسی اقدامات کی تقلید کی خواہش ظاہر کی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ اقدام جرمن سیاست کو متزلزل کر سکتا ہے۔ تاہم میرکل کے ایک ترجمان نے سارکوزی کے اس بیان کی تردید کی ہے۔
سارکوزی نے یورپی یونین کی کمشنر برائے انصاف Viviane Reding کا یہ بیان بھی مسترد کردیا کہ روما شہریوں کی بے دخلی دوسری عالمی جنگ کے واقعات سے کوئی مطابقت رکھتی ہے۔ انہوں نےکہا، ’دوسری عالمی جنگ کے موقع پر یہودیوں کی بے دخلی کی مثال دیتے ہوئے، جو نفرت انگیز اور شرمناک الفاظ استعمال کئے گئے، ہمیں ان سے بہت دُکھ پہنچا۔‘
قبل ازیں رواں ہفتے کے آغاز پر یورپی یونین کی کمشنر برائے انصاف نے یونین پر زور دیا تھا کہ اس معاملے پر پیرس حکومت کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
گزشتہ ماہ سےے اب تک فرانس میں روما شہریوں کے 200 کیمپ ختم کئے جا چکے ہیں جبکہ تقریباﹰ ایک ہزار افراد کو رومانیہ اور بلغاریہ بھیجا گیا ہے۔
فرانسیسی صدر قبل ازیں اپنی حکومت کے اقدامات کو انسانی حقوق اور مائیگریشن پر یورپی یونین کے قانون کے عین مطابق قرار دے چکے ہیں۔
یورپی یونین کے قوانین کے مطابق اس کے رکن ممالک ایسے افراد کو ملک بدر کر سکتے ہیں، جو تین ماہ سے بے روزگار ہوں یا ان کے لئے سماجی بوجھ بنے ہوئے ہوں۔ انہیں ملک میں آمد کے تین ماہ کے دوران ملکی سکیورٹی کے لئے خطرہ بننے کے خدشے کے تحت بھی ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عدنان اسحاق