روس کے صدر پوٹن سرکاری دورے پر ویتنام پہنچ گئے
20 جون 2024روسی صدر ولادیمیر پوٹن صدر ٹو لام اور دیگر رہنماؤں سے بات چیت کے لیے جمعرات کو ویتنام پہنچے۔ دو ملکی دورے پر یہ ان کا آخری پڑاؤ ہے، جس کے دوران انہوں نے پہلے شمالی کوریا کا دورہ کیا اور رہنما کم جونگ ان کے ساتھ دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔
روس اور شمالی کوریا کے رہنماؤں کی ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں؟
روسی حکام کا کہنا ہے کہ ویتنام کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت میں توجہ معیشت، تعلیم اور توانائی پر مرکوز ہو گی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ دونوں رہنما یوکرین اور ممکنہ طور پر دفاعی تعاون پر بھی بات چیت کر سکتے ہیں۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن شمالی کوریا کے غیر معمولی دورے پر
پوٹن نے گزشتہ مئی میں پانچویں مدت کے عہدہ صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد پہلے چین کا دورہ کیا تھا اور پھر شمالی کوریا کے دورے کے بعد اب وہ ویتنام میں ہیں۔ سن 2017 کے بعد سے یہ ان کا پہلا دورہ ویتنام ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ اس ملک کا چار بار دورہ کر چکے ہیں۔
ویتنام کیا روس سے دوری اختیار کر رہا ہے؟
ایجنڈے میں کیا شامل ہے؟
روسی صدر پوٹن جمعرات کی صبح دارالحکومت ہنوئی پہنچے، جہاں سب سے پہلے ان کی ملاقات ویتنام کے نائب وزیر اعظم ٹران ہونگ ہا سے ہوئی۔
جمعرات کے روز ہی صدارتی محل میں ایک استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا جائے گا، جس کے بعد وہ جنرل سیکرٹری نگیون پھو ٹرونگ سے بات چیت کریں گے۔ وسیع پیمانے پر ٹرونگ کو ویتنام کا سب سے بااثر سیاستدان مانا جاتا ہے۔
پوٹن ویتنام کے وزیر اعظم فام من چن سے بھی ملاقات کریں گے اور ایک سرکاری ضیافت میں بھی شرکت کریں گے۔
اعلیٰ حکام کے ساتھ بات چیت کے علاوہ پوٹن گلپوشی کی تقریبات میں بھی شرکت کرنے والے ہیں، جس میں ہو چی من کا مقبرہ بھی شامل ہے۔ یہ ویتنام کے بانی رہنما ہو چی من کا مقبرہ ہے۔
ویتنام نے اپنی غیر جانبدار خارجہ پالیسی کے تحت یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کرنے سے گریز کیا ہے، جسے ''بانس ڈپلومیسی'' کہا جاتا ہے۔ البتہ ویتنام کی کمیونسٹ پارٹی کے اخبار نے لکھا ہے کہ رائے شماری کے مطابق پوٹن نے یوکرین ''بحران کے حل کے لیے ایک عملی طریقہ کار'' کی حمایت کی، جس کی قوم نے تعریف کی ہے۔
ہنوئی اور ماسکو کے تعلقات سن 1950 کی دہائی سے گہرے ہیں اور روس ویتنام کو سب سے زیادہ ہتھیار فراہم کرنے والوں میں سے ایک ہے۔
آسٹریلیا کی نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی میں سیاست کے ایمریٹس پروفیسر کارل تھائر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''روس اور ویتنام کے درمیان ہتھیاروں کی فروخت دوبارہ شروع کرنے میں باہمی مفاد تو ہے، لیکن ویتنام امریکی پابندیوں کے خطرے سے بھی دوچار ہے۔''
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)