’روس سے داعش کو نشانہ بنانے کی درخواست کی جائے‘
21 اکتوبر 2015خبر رساں ادارے روئٹرز نے یہ بات اتحادی حکومت اور ملیشیا ارکان کے حوالے سے بتائی ہے۔ حیدرالعبادی پر بڑھتے ہوئے دباؤ نے انہیں ایک نازک صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ ایک طرف تو انہیں اپنی حکومت بچانے کے لیے اتحادیوں کی بات کا پاس رکھنا ہوگا اور دوسری طرف اسٹریٹیجک اتحادی واشنگٹن حکومت سے بھی تعلقات کا لحاظ رکھنا ہو گا۔
امریکا کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ نے منگل 20 اکتوبر کو بغداد کے دورے کے بعد کہا کہ امریکا نے عراق سے اس بات کی یقین دہانی حاصل کر لی ہے کہ وہ ایسے حملوں کی درخواست نہیں کرے گا۔
روئٹرز کے مطابق سرد جنگ کے دو سابق حریف امریکا اور روس شام میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ روس کی طرف سے شام کے ہمسایہ ملک عراق میں بھی اسلامک اسٹیٹ کے خلاف ایسے حملوں کا دائرہ وسیع کر دیا جائے گا۔
حیدرالعبادی، ان کی حکومت اور ایران نواز شیعہ ملیشیا کی طرف سے اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی حملوں کی رفتار اور ان کی وسعت پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں اور اس بات کے اشارے بھی دیے جا چکے ہیں کہ ایسی صورت میں ان کا جھکاؤ ماسکو کی طرف ہو سکتا ہے۔ روئٹرز کے مطابق عراقی پارلیمان کے دو ارکان کا کہنا کہ حکمران قومی اتحاد کی طرف سے روسی مداخلت کی درخواست کرنے کے مطالبے پر وزیراعظم ’شدید دباؤ‘ میں ہیں۔
2003ء میں سابق عراقی صدر صدام حسین کی حکومت کے بعد سے عراق فوجی تربیت کی مد میں امریکا سے 20 بلین ڈالرز حاصل کر چکا ہے، تاہم اس کی فوج اسلامک اسٹیٹ کے مقابلے میں عملی طور پر ڈھیر ہو گئی جس نے گزشتہ برس ملک کے شمالی علاقوں پر قبضہ کر لیا اور پھر مغرب کی طرف بھی پیش قدمی کی۔ امریکی سربراہی میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فضائی حملے اس شدت پسند گروپ کے خلاف مؤثر ثابت نہیں ہوئے۔
روئٹرز کے مطابق عراقی پارلیمان کے ارکان اور اتحادی ارکان کا کہنا ہے کہ روسی حملوں کے حوالے سے ایک سرکاری درخواست العبادی تک گزشتہ ہفتے ایک میٹنگ کے دوران پیش کی گئی اور یہ کہ انہوں نے ابھی تک سرکاری طور پر اس کا جواب نہیں دیا۔
روس، ایران، شام اور عراق نے بغداد میں ایک انٹیلیجنس سیل قائم کیا ہے جس کا مقصد خطے میں اسلامک اسٹیٹ کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو روکنا ہے۔ یہ سیل شام اور عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف اہم انٹیلیجنس فراہم کر رہا ہے۔